تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی- قم
حوزہ نیوز ایجنسی I ہائے کس طرح سے بیان کیا جائے کہ حجت الاسلام و المسلمین عالیجناب مولانا عم محترم سید ولی الحسن رضوی صاحب کے انتقال پر ملال کی اچانک سے خبر سن کر کس قدر صدمہ اور دکھ ہوا جسے بیان نہیں کیا جا سکتا، اور یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ اب آپ اس دنیا میں نہیں رہے، مگر موت ایک زندہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن ضرور جانا ہے،
آپ خطیب، ادیب، استاد الشعراء، کئی کتابوں کے مصنف و مترجم، مفسر، ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی شفیق، مہربان، با اخلاق اور مخلص انسان تھے،
آپ ہماری اہلیہ کے رشتہ میں عمو ہوتے تھے تو ہم لوگ بھی ہمیشہ عمو ہی کہتے تھے، آپ ہم لوگوں اور ہمارے بچوں وغیرہ اور تقریبا سبھی سے ہمیشہ بہت ہی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے، یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ آپ کی ہم نشینی اور صحبت کا کافی شرف حاصل رہا اور آپ کو بہت ہی قریب سے دیکھنے اور ملنے کا بہت زیادہ موقع ملا، جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی تو کافی دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا، اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا، آپ خود بھی فرماتے تھے کہ بہت سی باتیں صرف حقیر کے سینہ میں ہیں میرے بعد شاید ان باتوں کو کوئی اور نہ بتا پائے،
آپ اپنی بزم اور نشست میں علم و ادب کی باتیں، بزرگوں اور قدیم علماء کا تذکرہ مسلسل کرتے، اور میں آپ سے یہ بات کہتا تھا کہ ہم لوگوں نے تو بزرگ اور قدیم علماء کو تو نہیں دیکھا جس کا ہمیں بہت ہی افسوس اور قلق رہتا ہے مگر آپ لوگوں کو دیکھ کر دل کو سکون مل جاتا ہے کہ آپ لوگوں نے ان اکابر اور بزرگوں کو دیکھا اور درک کیا ہے اور ہم لوگ کم سے کم آپ لوگوں کو ہی دیکھ رہے ہیں، آپ خود بھی چاہتے اور اس بات کو پسند کرتے تھے کہ علم دوست اور با ذوق لوگ آپ کے پاس بیٹھیں تاکہ علمی اور ادبی گفتگو ہو،
حقیر کی یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ کئی مرتبہ آپ کے سامنے مجلسیں پڑھنے کا موقع ملا، آپ ہمیشہ حوصلہ افزائی اور شوق دلاتے، اور مجلس سے متعلق اگر کوئی بات ہوتی تو اسے بیان بھی کرتے تھے،
ویسے تو عام طور کچھ دنوں کے بعد کہیں نہ کہیں آپ سے ملاقات ہو ہی جاتی تھی اور اگر نہیں بھی ہو پاتی تھی تو ہم لوگ خود آپ کے گھر جاتے اور آپ سے ملاقات کرتے، آپ بہت ہی خوش ہوجاتے، گلے سے لگاتے، اور بڑی دعائیں دیتے، بڑی گرم جوشی سے ملتے اور والہانہ استقبال کرتے،
اسی ماہ مبارک میں کئی دن ساتھ میں افطار کرنے کا شرف اور موقع ملا اور آخری مرتبہ 28 رمضان المبارک کو ساتھ میں افطار کیا لیکن اس دن طبیعت کچھ ناساز لگ رہی تھی افطار کے بعد جب اٹھنے لگے تو میں نے پوچھا عمو طبیعت کیسی ہے کہنے لگے طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں اس کے بعد دوسرے دن بھی ڈاکٹر کے پاس گئے اور بعد میں پتہ چلا کہ کمزوری وغیرہ ہے، گذشتہ شب ہمارے برادر نسبتی مرتضی صاحب کے گھر عید الفطر کی مناسبت سے دعوت تھی اور سب لوگ اکٹھا ہونے والے تھے اور آپ بھی آنے کی تیاری کر رہے تھے، مغرب کے بعد ہم لوگوں نے نماز وغیرہ پڑھنے کے بعد گاڑی کی اور جیسے ہی گاڑی میں بیٹھنے جا رہے تھے اچانک اہلیہ کے پاس فون آیا کہ آپ کے گھر جلدی سے پہونچیں، رونے کی آوازیں آ رہی تھیں، ہم لوگ پریشان ہوگئے اور میں نے خود گاڑی میں بیٹھے بیٹھے فون کیا کہ پتہ کریں کہ دقیق خبر کیا ہے تو پتہ چلا کہ آپ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے، آپ کی روح ایسے نکلی جیسے پھول سے خوشبو، آخر ہم لوگوں کو کیا پتہ تھا کہ 28 رمضان المبارک کی ملاقات آخری ملاقات ہوگی، اگر ذرا سا بھی گمان ہوتا تو کل دن میں ہی آپ سے ملاقات کرنے چلے گئے ہوتے اور رات کا انتظار نہ کرتے، لیکن شاید دوبارہ ملاقات نصیب نہیں تھی،
آپ کا جانا واقعا بہت ہی کھل رہا ہے اور ابھی بھی یقین کر پانا سخت ہو رہا ہے، آپ چلے گئے مگر آپ کی بے پناہ محبتیں اور شفقتیں، اور آپ کی مفید باتیں، ہمیشہ یاد آتی رہیں گی اور دل کو رلاتی رہیں گی، تمام رشتہ داروں اور تمام جاننے والوں سبھی کے لئے بہت ہی سخت گھڑی ہے خاص طور سے آپ کی اہلیہ، بیٹیوں، بیٹوں اور بھائیوں کے لئے، سبھی کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش ہے اور خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں عم محترم کی مغفرت اور جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ ساتھ ہی ساتھ تمام رشتہ داروں، بھائیوں خاص طور سے سرکار شمیم الملت، پھوپھی جان(آپ کی اہلیہ) آپ کے بیٹوں برادر عزیز زہیر ظفر و برادر عزیز بریر ظفر صاحبان اور بیٹیوں کو صبر جمیل عنایت فرمائے-
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
آپ کا تبصرہ