حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ مہاراشٹر کی مختلف ملی تنظیموں کا ایک وفد جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) سے ملا اور مجوزہ وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ کو دستور کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ یہ ملاقات سانتاکروز کے تاج ہوٹل میں ہوئی، جہاں وفد نے کمیٹی کو ایک میمورنڈم پیش کیا۔
وفد کے شرکاء نے کمیٹی کو بتایا کہ تقریباً تمام مسلمان اس بل کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ملک بھر میں ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد مسلمانوں نے ایمیل اور خطوط کے ذریعے اپنی آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بل مسلمانوں کی زمینوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، کیونکہ حکومت کے زیر اثر کلکٹرز عدالتوں کے امور کا فیصلہ کریں گے، جو کہ ناقابل قبول ہے۔
مولانا روح ظفر رضوی نے اس موقع پر کہا: "وقف اللہ کی زمین ہے، وقف اللہ کے لیے ہوتا ہے، اس کی حفاظت کے لیے قانون ہونا چاہیے، نہ کہ اسے مٹانے کے لیے۔"
وفد نے مزید وضاحت کی کہ موجودہ ترمیم سے عدالتوں کا سارا عمل ضلع کلکٹرز کے سپرد ہو جائے گا، جو کسی بھی صورت میں حکومت کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ، غیر مسلم ممبران کی شمولیت اور سی ای او کے لیے مسلم شرط کے خاتمے کی تجویز پر بھی سخت اعتراض کیا گیا۔
وفد کے اراکین نے واضح کیا کہ وقف کی زمینیں عوامی جائداد نہیں بلکہ مسلمان مالکین کی پرائیویٹ پراپرٹی ہیں، جنہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں وقف کیا۔ لہذا، ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس بل کو فوری طور پر واپس لے اور جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کرنے والی تنظیموں سے ملاقات کرے۔
ملاقات میں آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود احمد خاں دریابادی، مہاراشٹر جماعت اسلامی کے صدر مولانا الیاس خاں فلاحی، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیرقاضی، ممبئی امن کمیٹی کے صدر فرید شیخ، مولانا فہیم فلاحی سکریٹری وقف سیل جے ایچ آئی، مومنٹ پیس اینڈ جسٹس کے صدر محمدسراج، شیعہ عالم دین مولانا روح ظفر رضوی، مبین احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ،جماعت اسلامی ممبئی کے سکریٹری شاکر شیخ، بمبئی ایجوکیشن اینڈ شوشل ٹرسٹ کے مینجنگ ٹرسٹی سلیم موٹر والا، افسر عثمانی سکریٹری ایم پی جے،میمن جماعت کے حافظ اقبال چوناوالا اور دیگر حضرات شریک تھے ـ
وفد نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بل زور زبردستی پاس کرالیا گیا، تو ملک کے مسلمان دستور میں دیے گئے حقوق کے تحت اس بل کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔