تحریر: محمد جواد حبیب
خلاصہ:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اسلامی تاریخ میں عظیم اخلاقی، سماجی، اور روحانی شخصیت کی حامل ہیں۔ ان کی زندگی اور تعلیمات عصرِ حاضر کے چیلنجز، جیسے اخلاقی زوال، خاندانی نظام کی کمزوری، معاشرتی انصاف کا فقدان، اور روحانی بحران کا حل پیش کرتی ہیں، اس مقالے میں حضرت زہرا س کی تعلیمات کو عصری تناظر میں دیکھتے ہوئے قرآنی آیات اور شیعہ علماء کے اقوال کے حوالوں کے ساتھ سماجی اصلاحات اور انفرادی زندگی میں ان کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔
تعارف
حضرت فاطمہ زہرا س کی شخصیت اسلامی اصولوں اور اخلاقیات کی اعلیٰ مثال ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت علیہم السلام کی پاکیزگی کا ذکر فرمایا ہے:
"اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"(سورۂ احزاب: 33) اللہ تعالیٰ اہل بیت کو ہر طرح کے گناہوں سے پاک رکھتا ہے۔
شیعہ عالم دین علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ حضرت زہرا س اس آیت کا واضح مصداق ہیں، جنہوں نے زندگی بھر اللہ کی رضا اور عبادت کو اپنی ترجیح بنایا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا۔
عصرِ حاضر کے چیلنجز کا جائزہ
آج کی دنیا مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ اخلاقی بگاڑ، معاشرتی انصاف کا فقدان، خاندانی نظام کی زوال پذیری، اور روحانی سکون کی کمی ہمارے لیے اہم چیلنجز بن چکے ہیں۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات اور حضرت زہرا س کی شخصیت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
اخلاقی بگاڑ
آج کل ایمانداری، دیانت، اور قناعت جیسی خصوصیات ناپید ہوتی جا رہی ہیں، جبکہ فریب اور دھوکہ دہی عام ہیں۔ حضرت زہرا س کی زندگی میں ہمیں سچائی، دیانت داری، اور قناعت کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:"وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ"(سورۂ توبہ: 119)اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو سچائی اختیار کرنے اور سچوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے۔
شیعہ مفسر شیخ الطبرسی تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کے تحت بیان کرتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کا کردار ہمیشہ سچائی اور حقانیت کا حامل رہا ہے، اور حضرت زہرا س اس کا کامل نمونہ تھیں۔
بحار الانوار میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت زہرا س ہمیشہ سچائی کی پیروی کرتی تھیں اور اپنے دل کو دنیاوی لالچ سے دور رکھتی تھیں۔
خاندانی نظام کی مضبوطی
خاندانی نظام کا زوال اور ازدواجی مسائل آج کے معاشرتی بحران کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ حضرت زہرا س کی ازدواجی زندگی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ محبت، عزت، اور قربانی کی اعلیٰ مثال ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً"(سورۂ روم: 21)اللہ نے ازدواجی زندگی میں محبت اور سکون کی خصوصیات رکھی ہیں۔
حضرت آیت اللہ جوادی آملی اپنی کتاب زن آئينہ جمال و جلال میں لکھتے ہیں کہ حضرت زہرا س نے اس آیت کا عملی نمونہ پیش کیا اور اپنی ازدواجی زندگی میں صبر اور محبت کو قائم رکھا۔اور منتہی الامال میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زہرا س نے اپنی ازدواجی زندگی میں محبت اور احترام کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
معاشرتی عدل و انصاف
حضرت زہرا س نے ہمیشہ عدل و انصاف کا ساتھ دیا۔ ان کے خطبہ فدک میں ہمیں ظلم کے خلاف اور حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے کا سبق ملتا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ"(سورۂ نحل: 90)اللہ تعالیٰ انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
حضرت آیت اللہ مطہری اپنی کتاب عدالت الٰہی میں حضرت زہرا س کو ظلم کے خلاف اور انصاف کے قیام کا علمبردار قرار دیتے ہیں، اور ان کا خطبہ فدک اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے حق کی بحالی کے لیے پرعزم تھیں۔
خطبہ فدک میں حضرت زہرا س نے فرمایا: "اللہ نے میرے حق کو محفوظ کیا اور عدل و انصاف کے قیام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے"۔
روحانی سکون اور قلبی اطمینان
آج کے دور میں روحانی اور نفسیاتی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ حضرت زہرا س کی زندگی میں اللہ کی عبادت اور ذکر الہی کا بہت مقام تھا۔ آپ راتوں کو عبادت میں گزارتی تھیں اور اللہ سے قربت حاصل کرتی تھیں۔
قرآن میں اللہ فرماتا ہے:"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"(سورۂ رعد: 28)اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
آیت اللہ بہجت فرماتے ہیں کہ حضرت زہرا س کا زندگی بھر ذکر الٰہی اور تقرب الٰہی کا جذبہ تھا، جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے مسائل میں بھی اللہ کی طرف رجوع کرکے سکون حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بحار الانوار میں روایت ہے کہ حضرت زہرا س رات کو عبادت کرتی تھیں اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بناتی تھیں۔
حضرت زہرا س کی تعلیمات اور خواتین کی ترقی
حضرت زہرا س کا کردار خواتین کے لیے ایک مثالی رول ماڈل ہے۔ آپ نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کی عزت و وقار کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ عورت اسلامی معاشرت میں ایک معزز مقام رکھتی ہے اور اس کی تعلیمات میں عورت کی ترقی کے اصول شامل ہیں۔عصر حاضر کی خواتین کو چاہیے کہ حضرت زہرا س کی تعلیمات کو اپنائیں اور اپنے کردار کو ان اصولوں پر قائم کریں۔
دختر رسول میں عائشہ عبد الرحمن نے حضرت زہرا س کی شخصیت کو خواتین کے لیے مثالی قرار دیا ہے اور ان کی تعلیمات کو عصر حاضر کی خواتین کے لیے ایک راہنما سمجھا ہے۔
نتیجہ:
حضرت فاطمہ زہرا س کی تعلیمات اور طرزِ زندگی ہمیں اخلاقی، سماجی اور روحانی بحرانوں کا بہترین حل فراہم کرتے ہیں۔ ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہم اخلاقی گراوٹ، خاندانی نظام کے زوال، اور عدل و انصاف کی کمی جیسے مسائل کو دور کر سکتے ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا س کی تعلیمات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان کی شخصیت میں عصرِ حاضر کے چیلنجز کا حل موجود ہے۔ ان کی تعلیمات کا مقصد نہ صرف ہمارے انفرادی بلکہ اجتماعی مسائل کا حل بھی فراہم کرنا ہے۔ اگر ہم حضرت زہرا س کے طرز زندگی کو اپنائیں تو ایک خوشحال اور پُر امن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
حوالہ جات:
علی شریعتی، فاطمہ فاطمہ ہے، مکتبۃ الحسین۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، دار الکتب اسلامیہ۔
شیخ عباس قمی، منتہی الامال، مکتبۃ البصائر۔
حضرت زہرا س کا خطبہ فدک، مکتبہ اہل بیت۔
عائشہ عبد الرحمن، دختر رسول، دار السلام۔
علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان۔
شیخ الطبرسی، تفسیر مجمع البیان۔
آیت اللہ جوادی آملی، زن آئينہ جمال و جلال۔
آیت اللہ مطہری، عدالت الٰہی۔
آیت اللہ بہجت، بحار الانوار۔