جمعرات 3 اپریل 2025 - 07:00
اہل حق کی حمایت نہ کرنا اور حق کو بے سہارا چھوڑ دینا باطل کی حمایت کے مترادف ہے

حوزہ / آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی نے نجف اشرف میں نماز عید کے خطبوں میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں حق کے مفہوم اور اکثر لوگوں کی اس سے مخالفت پر گفتگو کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، عید الفطر کے دن آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی نے نجف اشرف میں نماز عید کے خطبوں میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں حق کے مفہوم اور اکثر لوگوں کی اس سے مخالفت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: حق، اسمائے حسنائے الٰہی میں سے ہے اور اکثر لوگ اس سے دور ہو چکے ہیں۔

انہوں نے سورہ مؤمنون کی آیت 70 اور سورہ زخرف کی آیت 78 کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "أَمْ یَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَکْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ کَارِهُونَ" یعنی "کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے؟ (ایسا نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے، مگر ان میں سے اکثر حق کو ناپسند کرتے ہیں۔" (مؤمنون: 70) اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ "لَقَدْ جِئْنَاکُمْ بِالْحَقِّ وَلَکِنَّ أَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کَارِهُونَ" یعنی "ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے، لیکن تم میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔" (زخرف: 78)۔

اہل حق کی حمایت نہ کرنا اور حق کو بے سہارا چھوڑ دینا باطل کی حمایت کے مترادف ہے

آیت اللہ یعقوبی نے کہا: اہل بیت علیہم السلام نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اہل حق پر زیادتی نہ کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا: معصومین علیہم السلام کی نظر میں نہ صرف اہل حق پر ظلم بلکہ ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا اور حق کو بے سہارا چھوڑ دینا بھی باطل کی حمایت کے مترادف ہے۔

نجف اشرف کے اس عالم دین نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان کا حوالہ دیا جس میں آپ علیہ السلام نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو آپ کی بیعت سے گریزاں رہے اور کہا: جو شخص حق کی مدد نہیں کرتا اور باطل کو ترک نہیں کرتا، وہ درحقیقت باطل کی حمایت کر رہا ہوتا ہے۔

نوٹ:

حکمت نمبر 262 نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ: کیا آپ علیہ السلام کے خیال میں مجھے اس کا گمان بھی ہو سکتا ہے کہ اصحابِ ِجمل گمراہ تھے؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ: یَا حَارِثُ! اِنَّكَ نَظَرْتَ تَحْتَكَ، وَ لَمْ تَنْظُرْ فَوْقَكَ فَحِرْتَ! اِنَّكَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ اَتَاهُ، وَ لَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ اَتَاهُ. یعنی "اے حارث! تم نے نیچے کی طرف دیکھا، اوپر کی طرف نگاہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہو گئے ہو۔ تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔ فَقَالَ الْحَارِثُ: فَاِنِّیْۤ اَعْتَزِلُ مَعَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ وَّ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ؟ فَقَالَ ؑ: حارث نے کہا کہ: میں سعد ابن مالک اور عبد اللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہو جاؤں گا۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ: اِنَّ سَعْدًا وَّ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عُمَرَ لَمْ يَنْصُرَا الْحَقَّ وَ لَمْ يَخْذُلَا الْبَاطِلَ. "سعد اور عبد اللہ ابن عمر نے نہ حق کی مدد کی اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا"۔

سعد ابن مالک (سعد بن ابی وقاص) اور عبد اللہ ابن عمر ان لوگوں میں سے تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کی رفاقت و ہمنوائی سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ سعد ابن ابی وقاص تو حضرت عثمان کے قتل کے بعد ایک صحرا کی طرف منتقل ہو گئے اور وہیں زندگی گزار دی اور حضرتؑ کی بیعت نہ کرنا تھی، نہ کی اور عبداللہ ابن عمر نے اگرچہ بیعت کر لی تھی، مگر جنگوں میں حضرتؑ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور عذر یہ پیش کیا تھا کہ میں عبادت کیلئے گوشہ نشینی اختیار کر چکا ہوں، اب حرب و پیکار سے کوئی سروکار رکھنا نہیں چاہتا۔ (نہج البلاغہ، ترجمہ مفتی جعفر حسین)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha