جمعہ 25 اپریل 2025 - 14:09
کیا دست شناسی Palmistry جائز ہے؟

حوزہ/ پامسٹری ایک قدیم علم ہے جس میں ہاتھ کی لکیروں سے شخصیت اور مستقبل کے پہلوؤں کی پیش گوئی کی جاتی ہے؛ یہ انسانی جسم کی علامات کا تجزیہ ہے، جو زندگی کے اہم پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

تحریر و ترتیب: مولانا شہروز زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی|

پامسٹری ایک قدیم علم ہے جس میں ہاتھ کی لکیروں سے شخصیت اور مستقبل کے پہلوؤں کی پیش گوئی کی جاتی ہے؛ یہ انسانی جسم کی علامات کا تجزیہ ہے، جو زندگی کے اہم پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ہر پیش گوئی کرنے والا کاہن یا جادوگر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص کسی معقول علم و تجربے کی بنیاد پر کسی ممکنہ نتیجے کی اطلاع دے، تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ تاہم، اگر وہ شخص دعویٰ کرے کہ یقیناً مستقبل میں ایسا ہی ہوگا، تو یہ دعویٰ کرنا شرعاً حرام ہے، کیونکہ غیب کی یقینی خبر دینا کسی بشر کے لیے جائز نہیں ہے۔

مثلاً، موسمیات کے ماہرین مخصوص سائنسی آلات اور تجربے کی بنیاد پر موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں، جیسے کہ کل بارش کا امکان ہے۔

اسی طرح اسٹاک مارکیٹ کے ماہرین بھی معاشی تجزیہ، کمپنی کی کارکردگی اور دیگر اعداد و شمار کی بنیاد پر مستقبل میں قیمتوں کے ممکنہ اتار چڑھاؤ کے بارے میں رائے دیتے ہیں۔ یہ سب محض ایک اندازہ ہوتا ہے، جو علم و تجربے پر مبنی ہوتا ہے، اور اس کا مقصد یقین سے غیب کی خبر دینا نہیں ہوتا، پس یہ امکان دینا حرام نہیں ہوگا۔

اسی طرح بعض ماہر اطباء جسم کی ظاہری علامات جیسے ہاتھ، زبان، آنکھوں یا جلد کو دیکھ کر بیماری کی تشخیص کرتے ہیں، جو ایک سائنسی و تجرباتی عمل ہے، نہ کہ جادو یا غیب گوئی۔ اسی طرح prognosis یعنی مرض کے ممکنہ نتائج کا اندازہ بھی تجربے پر مبنی ہوتا ہے، جیسے: "اگر علاج نہ ہوا تو مرض پھیپھڑوں کو متاثر کر سکتا ہے"۔ یہ باتیں امکان پر مبنی ہوتی ہیں، نہ کہ یقین کے ساتھ غیب کی خبر۔

لیکن اگر کوئی یقینی طور پر خبر دے کہ ایسا ہوگا تو یہ حرام ہے اور اسکے حرام ہونے پر روایات موجود ہیں ملاحظہ فرمائیے:

عن نصر بن قابوس قال سمعت أباعَبْداللَّهِ یَقُولُ الْمُنَجِّمُ مَلْعُونٌ و الْکَاهِنُ مَلْعُونٌ و السَّاحِرُ مَلْعُونٌ...(خصال ج١، ص٢٩۶)

ترجمہ: "۔۔۔۔پوشیدہ باتوں اور غیب کی خبریں دینے والا کہن (غیب گو) ملعون ہے اور جادوگر (ساحر) بھی ملعون ہے۔"

عن الحسین بن زید عَنِ الصَّادِقِ عَنْ آبَائِهِ فِی حَدِیثِ الْمَنَاهِی أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه و آله نَهَی عَنْ إِتْیَانِ الْعَرَّافِ و قال مَنْ أَتَاهُ وَ صَدَّقَهُ فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ عَلَی مُحَمَّدٍ صلی الله علیه و آله(الفقيه ج۴ص۶)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے عرّاف (غیب کی خبریں دینے والے) کے پاس جانے سے منع فرمایا، اور فرمایا:

جو شخص کسی عرّاف کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے، وہ اس وحی سے بیزار ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ پر نازل فرمائی ہے۔"

عن أبی بصیر عن أبی عبداللَّه قال مَنْ تَکَهَّنَ أَوْ تُکُهِّنَ لَهُ فَقَدْ بَرِئَ مِنْ دِینِ مُحَمَّدٍ

(خصال ج١ص١٩)

ترجمہ: "امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص ماضی، مستقبل یا کسی پوشیدہ و مخفی امر کی خبر دے، یا جس کے لیے یہ عمل انجام دیا جائے، وہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سے بیزار ہے۔"

کہانت (غیب کی خبر دینا)، حتمی پیشگوئی کرنا، اور پوشیدہ باتوں کی خبر دینا، نیز ایسے لوگوں کے پاس جانا جو یہ کام کرتے ہیں یہ سب ناجائز ہے۔

بعض لوگ مختلف طریقوں کا دعویٰ کرتے ہیں، جیسے: ستاروں کی چال سے انسان کا حتمی مستقبل بتانا، جنّات کی مدد لینا، یا ہتھیلی کی لکیریں دیکھ کر انسان کی قسمت، عمر یا اولاد کی تعداد حتمی طور پر بتانا۔ پس یہ غیب کی جھوٹی خبریں دینا، اسلام میں حرام ہے۔

لیکن اگر کوئی اپنے علم و تجربہ کی بنیاد پر امکان بتائے یا اندازہ لگائے کہ ممکن ہے ایسا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مرجع عظام کے فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں:

آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای:

"جھوٹی خبر دینا جائز نہیں، اور اس کے عوض لیا جانے والا مال شرعی حیثیت نہیں رکھتا۔"

آیت اللہ العظمٰی سیستانی:

"دست شناسوں کی دی ہوئی معلومات کی کوئی حیثیت نہیں، شرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یقین کے ساتھ اگر کوئی غیب کی خبر دے تو یہ جائز نہیں ہے۔ اور ان کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنا بھی جائز نہیں ہے، سوائے اسکے کہ کوئی عقلی و منطقی حوالہ اس سلسلے میں موجود ہو۔"

آیت اللہ العظمٰی بشیر نجفی:

"دست شناسی جائز ہے۔"

مستقبل کی خبر جاننے کی خواہش اور زمان و مکان سے آگے قدم رکھنے کی تمنا انسان کی زندگی سے جدا نہیں ہوتی۔ آج کل بعض لوگ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ توکل اور کوشش کو بھول جاتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ: "اور جو اللہ پر بھروسا کرے، وہ اس کے لیے کافی ہے"۔ وہ خالق کی بجائے مخلوق کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی سطحی و محدود دانش سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔

عقیدہ بداء کے مطابق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ بعض اوقات انسان کی دعا، نیک عمل یا دیگر اسباب کی وجہ سے تبدیل ہو سکتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha