حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، املو مبارکپور،اعظم گڑھ/ حضرت ابو طالب علیہ السلام ہی وہ عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی ابو طالب ہیں جنھوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملیں۔ وہی ابو طالب ہیں جنھوں نے اپنی زوجۂ مکرمہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ۔ اور اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی حوصلہ افزائی کی۔ انھوں نے اپنے بیٹے علی علیہ السلام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں۔

انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ اور حتی کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔
ان خیالات کا اظہار خطیب اہل بیت ؑ عالی جناب مولانا ڈاکٹر سید کاظم مہدی عروج جونپوری نے مثل سالہائے گزشتہ اس سال بھیی بتاریخ ۲۲؍صفر تا ۲۶؍صفر زیر اہتمام مہدی آرمی فیڈریشن املو مبارکپور ، املو بازار میں واقع شبیہ روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے وسیع وعریض صحن میں منعقد خمسہ مجالس کو خطاب کے دوران کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ حضرت ابو طالب مومن قریش ، محسن اسلام اور محافظ رسول اسلام تھے جن کے احسانات سے اسلام کبھی بھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ابو طالب نے قیامت تک اسلام کی بقا و سالمیت کا اس انداز میں اہتمام کیا کہ جب بھی اسلام پر وقت آتا ہے ابو طالب کی نسل سے تعلق رکھنے والا کوئی نمائندہ قربانیا ںدے کر اسلام کو بچا لیتا ہے۔ امام حسین کی رگوں میں حضرت ابو طالب کا ہی خوں دوڑ رہا تھا جنھوں نے ایسی عظیم قربانیاں دیں جو قیامت تک بے مثل و بے نظیر اور یادگار رہیں گی۔
آخر میں مولانا نے حضرت علی اکبر کے مصائب بیان کئے جسے سن کر سامعین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی،مولانا محمد مہدی قمی،مولانا شمیم اختر قمی،مولانا عون محمد نجفی، مولانا رضا حسین نجفی سمیت بلا امتیاز مذہب و مسلک کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔









آپ کا تبصرہ