حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سربراہِ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا ہے کہ عدلیہ کی اصل روح فقہ اور اخلاق کے امتزاج میں پوشیدہ ہے، اور ہر قاضی کو فقہی بصیرت کے ساتھ عدلِ الٰہی کے اصولوں پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔
آیت اللہ اعرافی نے صوبہ قم کی عدلیہ کے سربراہان اور ججوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دنیا میں جہاں عدالتی نظام اکثر طاقت یا سیاست کے تابع ہو چکا ہے، وہاں اسلامی عدلیہ کو ایک اخلاقی و فقہی معیار قائم کرنا چاہیے تاکہ وہ انسانیت کے لیے نمونہ بن سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر قاضی کے اندر انصاف، تقویٰ اور علمی گہرائی نہ ہو تو عدالت محض ایک ادارہ بن کر رہ جاتا ہے۔
آیت اللہ اعرافی کے مطابق، قرآن نے عدل کو انسان کی حقیقی عبادت قرار دیا ہے، اور اس کے لیے سب سے پہلے انسان کو اپنے اندر کا نظم و انضباط قائم کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے سورہ سبا کی آیت «اِنَّما اَعِظُکُم بِواحِدَةٍ اَن تَقوموا لِلّهِ مَثنی و فُرادی» کی روشنی میں کہا کہ قیام للہ کا مطلب صرف عبادت نہیں بلکہ حق کے لیے کھڑے ہونا ہے۔ انسان کے سامنے تین بڑے دشمن ہیں:1. سستی اور غفلت، 2. نفسانی خواہشات، 3. ماحولیاتی اثرات اور بیرونی دباؤ۔ ان تینوں پر قابو پانا ہی ایک مؤمن اور قاضی کی اصل آزمائش ہے۔

انہوں نے کہا کہ قم، حرم حضرت معصومہؑ کی برکت سے، انقلابِ اسلامی کا فکری مرکز ہے، اس لیے یہاں کے ججوں اور عدالتی عملے کی ذمہ داری عام مقامات سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر قول و عمل یہاں عالمی اثر رکھتا ہے، اس لیے انہیں فقہی بصیرت، دینی آگاہی اور اخلاقی استقامت میں دوسروں کے لیے مثال بننا چاہیے۔
آیت اللہ اعرافی نے واضح کیا کہ قاضی کو فقہ کے اصولوں سے گہری وابستگی پیدا کرنی چاہیے۔ فقہ صرف احکام نہیں بلکہ ایک فکری نظام ہے جو عدل، مصلحت اور کرامتِ انسانی کا مجموعہ ہے۔









آپ کا تبصرہ