حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام والمسلمین محمدی شاہرودی نے ایک سوال و جواب کے ذریعے ماں کی سقطِ جنین کے بارے میں ذمہ داری کے موضوع کو واضح کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: اگر میں نے دورانِ حمل "یا حتیٰ کہ حمل سے پہلے" ضروری احتیاط اور توجّہ نہیں کی، کوئی غلطی یا لاپرواہی ہو گئی اور میرا بچہ سقط ہوگیا، تو کیا قیامت میں یہ بچہ مجھ سے شکایت کرے گا؟ کیا اس کا کوئی حق میرے ذمہ باقی رہ جاتا ہے؟
جواب:
یہ مسئلہ دو حصوں میں سمجھنے کی ضرورت ہے:
۱۔ پہلا حصہ: حمل کی حفاظت میں کوتاہی
اگر واقعی آپ نے بے احتیاطی کی، ایسا کھانا یا دوا لے لی جو نہیں لینی چاہیے تھی، یا وہ دیکھ بھال نہیں کی جو ضروری تھی، تو اس حد تک ضرور آپ کی کوتاہی شمار ہوگی۔
یعنی جہاں آپ نے احتیاط میں کمی کی، وہاں آپ ذمہ دار ہیں۔ اس کا کفارہ دنیا ہی میں توبہ، استغفار اور آئندہ زیادہ محتاط رہنے کے عزم کے ذریعے ادا ہو جاتا ہے۔
لیکن یاد رکھیں کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا گناہ نہیں ہے، کیوں کہ آپ کی نیت نقصان پہنچانے کی نہیں تھی۔
۲۔ دوسرا حصہ: سقطِ جنین کا حکم
اب سوال یہ ہے کہ کیا ماں خود سقط کے وقوع پذیر ہونے کی ذمہ دار ہوتی ہے؟
جواب یہ ہے: اگر ماں نے جان بوجھ کر سقط کا ارادہ نہیں کیا، اور اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کا کوئی عمل نقصان یا سقط کا سبب بن سکتا ہے، تو وہ شرعاً سقط کی مجرم نہیں شمار ہوتی۔
لہٰذا خود سقط ہونے کے اعتبار سے اس کے ذمہ کوئی حق یا گناہ لازم نہیں آتا۔
قیامت میں شکایت کا مسئلہ
اب رہا یہ سوال کہ جنین قیامت میں شکایت کرے گا یا نہیں:
اگر حمل چار ماہ یا اس سے زیادہ کا تھا:
اس عمر میں جنین میں روح پھونکی جاتی ہے، اس لیے اسے برزخی ادراک حاصل ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں وہ یہ بات پوری طرح جانتا ہے کہ ماں کا ارادہ نقصان پہنچانے کا نہیں تھا۔ لہٰذا وہ قیامت میں ماں پر اعتراض یا شکایت نہیں کرے گا۔
اگر حمل چار ماہ سے کم کا تھا:
اس حالت میں تو شعور اور مطالبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نتیجہ
مجموعی طور پر ماں کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر اس کی نیت خراب نہیں تھی اور سارا معاملہ غفلت یا ناخواسته بے احتیاطی کی وجہ سے ہوا، تو قیامت میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔
بس دنیا میں جہاں کوتاہی ہوئی ہو، اس کا ازالہ توبہ، استغفار اور مستقبل میں زیادہ ذمہ داری کے ساتھ عمل کرنے سے ہو جاتا ہے۔









آپ کا تبصرہ