حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام حسین علیہ السلام یونیورسٹی کے ماہرین نے دنیا میں پہلی مرتبہ ملٹی لیئر الیکٹروپلیٹنگ کی ایسی تکنیک تیار کی ہے، جو خاص طور پر مقدس آثار کے طویل المدت تحفظ کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے حرم امام علی علیہ السلام کے تاریخی آثار کی مرمت اور بحالی کا عمل سائنسی معیار کے مطابق انجام دیا گیا ہے۔
ضریحِ امام علی علیہ السلام کا تاج صرف ایک فنی شاہکار نہیں بلکہ عالمِ تشیع کی تاریخی اور روحانی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تاج کیمیائی زنگ، تہہ کے اکھڑنے اور اندرونی چاندی کے ڈھانچے کو نقصان پہنچنے جیسے مسائل کا شکار ہو چکا تھا۔ ان خطرات کے پیش نظر ماہرین نے ایک ایسی سنہری تہہ تیار کی جس کی متوقع عمر سو سال سے زیادہ ہے اور جو نمی، زائرین کی سانسوں، تیزابی آلودگی اور ماحولیاتی اثرات سے مؤثر طور پر حفاظت کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، تانبے کی تہہ پرانی چاندی سے مضبوطی سے جڑتی ہے، نکل کی تہہ زنگ سے بچاتی ہے، جبکہ مختلف اقسام کی سنہری تہیں سطح کو مضبوط، چمکدار اور دیرپا بناتی ہیں۔ آخری مرحلے میں خصوصی کیمیائی عمل کے ذریعے تاج کو مزید مضبوط بنایا جاتا ہے تاکہ اس کا رنگ اور چمک طویل عرصے تک برقرار رہے۔
اس منصوبے کی کامیابی کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ یہی تکنیک دیگر مقدس مقامات جیسے کربلا، کاظمین، سامراء، مشہد اور دیگر اسلامی ممالک کے تاریخی و مذہبی مراکز میں بھی استعمال کی جا سکے گی۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس منصوبے کے سائنسی نتائج ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیے گئے، جہاں اسے ایک نمایاں تحقیقی کام کے طور پر سراہا گیا۔ یہ کامیابی امام حسین علیہ السلام یونیورسٹی کی سائنسی صلاحیتوں اور اسلامی ورثے کے تحفظ میں اس کے کردار کی عکاس ہے۔









آپ کا تبصرہ