حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدھیہ پردیش کے ضلع رتلام کے جاورا قصبے میں ایک ریٹائرڈ خاتون ٹیچر پر قرآنِ مجید جلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد مسلم سماج میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے۔
مقامی مسلمانوں نے رات گئے تک پولیس تھانے کا گھیراؤ کیا اور ملزمہ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کے دباؤ کے بعد پولیس نے خاتون کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
واقعہ کیا ہے؟
یہ واقعہ جمعرات، 18 دسمبر کو دوپہر تقریباً ڈیڑھ بجے رتلام کے حسین ٹیکری علاقے میں پیش آیا۔ الزام ہے کہ روزانہ روڈ پر واقع امام باڑے کے پیچھے رہنے والی ریٹائرڈ ٹیچر آتیہ خان نے کچھ کتابیں جلائیں، جن میں قرآنِ مجید کا ایک پرانا نسخہ بھی شامل ہے۔

جیسے ہی اس کی اطلاع ملی، مقامی مسلم سماج کے افراد علاقہ میں موجود تھانے پہنچے اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
تھانے کا گھیراؤ اور ایف آئی آر
جب شام تک کوئی تسلی بخش کارروائی نظر نہیں آئی تو سیکڑوں افراد نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا۔ سیرت کمیٹی کے عہدیداروں کی قیادت میں ہونے والے اس احتجاج کے دوران مظاہرین نے جلے ہوئے قرآن کے اوراق بھی پولیس کو دکھائے۔
احتجاج کے بعد، شاہین حسین کی تحریری شکایت پر پولیس نے بھارتی نیائے سنہتا (BNS) کی دفعہ 299 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے) کے تحت آتیہ خان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

پولیس اور ملزمہ کا موقف
پولیس کے مطابق، خاتون سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بیکار پڑی پرانی کتابوں کا ڈھیر جلا رہی تھیں۔ اسی ڈھیر میں قرآنِ شریف کا ایک پرانا نسخہ بھی تھا، جس کے بارے میں انہیں پہلے سے علم نہیں تھا۔
پولیس کے مطابق آگ جلتی دیکھ کر انور علی نامی شخص نے آگ بجھائی، اور اسی دوران خاتون کچھ جلی ہوئی کتابیں لے کر وہاں سے چلی گئیں۔ موقع پر موجود لوگوں نے جلے ہوئے باقیات محفوظ کر لیے۔

موجودہ صورتحال
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ ایڈیشنل ایس پی راکیش کھاکھا کے مطابق، معاملے کے تمام پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
علاقے کے لوگ ملزمہ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں کے بیانات اور شواہد کی بنیاد پر آگے کی کارروائی کی جائے گی۔
چونکہ یہ واقعہ حساس مذہبی جذبات سے جڑا ہوا ہے، اس لیے انتظامیہ نے عوام سے امن و امان برقرار رکھنے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔









آپ کا تبصرہ