بدھ 24 دسمبر 2025 - 11:36
علمی سفارت کاری، اسلامی تہذیب کے فروغ کا مؤثر ذریعہ ہے: حجۃ الاسلام کوہساری

حوزہ/ حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ حجت‌ الاسلام والمسلمین سید مفید حسینی کوہساری نے کہا ہے کہ عالمِ اسلام میں فکری بیداری، امت کے اتحاد اور اسلامی تہذیب کے فروغ کے لیے علمی سفارت کاری کو سنجیدگی سے اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور یہ عمل دیگر سفارتی شعبوں کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ حجت‌ الاسلام والمسلمین سید مفید حسینی کوہساری نے کہا ہے کہ علمی سفارت کاری کی مؤثر اور بامقصد تکمیل اس وقت ممکن ہے جب اسے دیگر اقسام کی سفارت کاری، بالخصوص ملکی، ثقافتی، میڈیا، مذاہب و ادیان اور اقتصادی سفارت کاری کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ کیا جائے۔

علمی سفارت کاری میں حوزہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے کردار کے عنوان سے ایک تخصصی نشست اوپن یونیورسٹی کردستان (دانشگاہ آزاد) میں منعقد ہوئی، جس میں حجت‌ الاسلام والمسلمین حسینی کوہساری نے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کیا۔

انہوں نے علمی سفارت کاری کو جمہوریہ اسلامی ایران کی نرم طاقت کا ایک اہم عنصر قرار دیتے ہوئے کہا کہ خصوصاً حالیہ 12 روزہ جنگ کے بعد عالمی سطح پر ایران کی علمی، فکری اور تہذیبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ ان کے بقول، جدید اسلامی ثقافت کی تشکیل اور امت سازی کے لیے ضروری ہے کہ علمی و ٹیکنالوجی ترقی سمیت طاقت اور پیش رفت کے تمام عناصر ایک دوسرے کے ساتھ متحرک ہوں۔

حوزہ علمیہ کے بین الاقوامی امور کے سربراہ نے کہا کہ علمی سفارت کاری کی فعالیت کے لیے اس کی اہمیت کو سمجھنا، اس میدان میں فکری و ثقافتی شعور بیدار کرنا ناگزیر ہے، تاکہ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے اداروں میں اسے ایک کلیدی حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا جا سکے۔ انہوں نے موجودہ عالمی حالات، ٹیکنالوجی اور متعدد ذرائع ابلاغ، نئی عالمی و علاقائی طاقتوں کے ظہور اور مغرب کی مادی تہذیب سے جنم لینے والے بحرانوں کو ایران کے لیے علمی سفارت کاری کے تاریخی مواقع قرار دیا۔

حجت‌ الاسلام والمسلمین حسینی کوہساری نے کہا کہ ملک کے علمی ادارے علمی سفارت کاری کے لیے بے مثال صلاحیتوں کے حامل ہیں۔

حوزہ علمیہ کے بین الاقوامی امور کے سربراہ نے علمی سفارت کاری کو فعال بنانے کے لیے چند ترجیحات بھی بیان کیں، جن میں غیر ایرانی طلبہ و طلاب پر خصوصی توجہ، فارسی زبان ممالک اور بیرونِ ملک ایرانیوں سے علمی روابط، ہمسایہ ممالک اور محاذ مقاومت کے ساتھ تعاون، عالمِ اسلام میں مشترکہ علمی مراکز کی تشکیل، مصنوعی ذہانت سے استفادہ، آن لائن نشستوں اور ویبینارز کا فروغ اور مشترکہ علمی انجمنوں کا قیام شامل ہے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ ان تمام اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ علمی سفارت کاری، دیگر سفارتی میدانوں کے ساتھ مربوط ہو کر آگے بڑھے، تاکہ ایران اپنی علمی و فکری برتری کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کر سکے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha