حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی دفتر مرجع مسلمین و جہانِ تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی دام ظلہ الوارف کی عالمی صحت کی تنظیم W, H, O (ڈبلیو،ایچ، او) کی طرف سے کورونا کو عالمی وباء کے طور پر تشخیص کئے جانے کے بعد مؤمنین کو نصیحتیں۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله الذي لا نعبد إِلا إياه مخلصين له الدين ونستلهمه التوبة ونرجو رضاه ونستعطف عفوه، والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين شفيعاً مشفّعاً وآله الهداة لا سيما وليّ الله الأعظم الذي بيمنه رُزِق الورى وبجوده ثبتت الأرض والسماء (عجل الله تعالى فرجه الشريف)، واللعنة على شانئيهم أجمعين إلى يوم الدين..
قال الله سبحانه (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ وَلَـكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ(
صَدَقَ اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.
ارشاد خداوندی ہے ( اگرزمین پر بسنے والے ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے (دین کو ) جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے کئے ہوئے اعمال کے سبب گرفت میں لے لیا )
ہمیں اس بات سے بخوبی واقفیت ہونی چاہئے کہ پروردگار عالم نے زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کے سب عالم بشریت کے فائدے کے لئے خلق کیا ہے اور خدا کو ان چیزوں کی کوئی حاجت و ضرورت نہیں ہے وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے اسی طرح پروردگار عالم نے جو انبیاء ؐ او ر رسولوں کو بھیجا ہے اور آسمانی کتابوں کو نازل فرمایا ہے وہ بھی بندوں پر اسکا لطف و اسکی مہربانی ہے ارشاد خداوندی ہے ( (لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً یقینا خدا نے صاحبانِ ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے انکی جنس کے (بشر ) کوایک رسولؐ بناکر بھیجا ہے ) لیکن بندے اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے خود کو خدا کی رحمت اور نعمت سے دور کرلیتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ ہمیں اس سے بھی بخوبی واقفیت ہونی چاہئے کہ خدا کی عظمت کے سامنے بغاوت کے ساتھ اگر برائیاں اور نافرمانیاں مسلسل ہوتی رہتی ہیں تو جہاں ہم رحمت کے مستحق ہوتے ہیں وہاں عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ اور یہ بھی کسی کے وہم و گمان میں نہ رہے کہ اور لوگوں کی مناسبت اسکے گناہ تو کم ہیں ،برائیاں چاہے جتنی بھی چھوٹی سے چھوٹی کیوں نہ ہو وہ خدائے عز و جل کی مخالفت میں اور اسکی بزرگی اور عظمت کے سامنے بڑا گناہ ہے لیکن برائی کرنے والے کی نادان سوچ اور وہم و گمان کے مطابق وہ چھوٹا گناہ ،بار بار کرنے اور دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے گناہوں کا انبار لگ جاتا ہے اور پھر وہ سب کے ساتھ عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اتنے سارے گناہوں اور معصیتوں کے باوجود اگر عذاب میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ لطف خدا اور رحمت الہی کی وجہ سے ہے ۔
آج جو پوری دنیا میں کورونا جیسی مہلک وباء پھیلی ہوئی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ عالم بشریت کی جانب سے خدا کے لئے خضوع و خشوع کے بجائے گناہوں اور سرکشی کا نتیجہ ہو اور اس وباء کے ذریعہ ہمیں رحمت و عطف الہی کے دامن سے پھر سے جا لگنے کی رغبت دلائی جا رہی ہو اور اسکی طرف کھینچا جا رہا ہو ۔
ماضی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بعض امتوں سے اپنے عذاب کو اٹھایا ہے جسطرح حضرت یونس ؑ کی قوم سے جب انہوں نےعملی ایمان کی پابندی کا ثبوت دیا تو خدا نے ان سے اپنے عذاب کو اٹھا لیا اسی طرح جب باغیوں پر خدا پہاڑ کو گرانے والا تھا تو انکی جانب سے اپنی سرکشیوں کو چھوڑنے کے بعد اور خدا کی اطاعت کے دامن سے جا لگنے کے بعد خدا نے اس پہاڑ کو دور کردیا تھا اور ان پر عذاب نہیں آیا تھا اسی لئے قطعا یہ جائز نہیں ہے کہ ہم خود سے خدا کی رحمت کو دور سمجھیں ہو سکتا ہے کہ اللہ اپنے عطف و کرم کے نتیجے میں اس وباء کو ہم سے اٹھا لے اور عالم بشریت اس مہلک وباء سے نجات پا جائے ۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر مندرجہ ذیل باتوں کی پابندی لازمی ہے
۱ ہمیں توبہ کا سہارا لیتے ہوئے خدا کے دامن رحمت کی جانب بہر صورت پلٹنا چاہئے اور اسکے ساتھ ساتھ ہمیں امام زمانہ عج کے عطف ،انکی دعاؤں ،ان سے توسل اور انکی شفاعت سے مدد حاصل کرنا چاہئے اور یہ تقوی الہی، روزانہ کم از کم ایک مرتبہ اپنے نفس کے محاسبے اور بعض لوگوں کی جانب سے بعض لوگوں پر کئے جارہے ظلم و ستم (چاہے وہ کتنا چھوٹا ظلم ہی کیوں نہ ہو )سے رفع ید کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
۲ ڈاکٹروں اور حکیموں کی نصیحتوں اور انکے ارشاد کی پابندی بہر صورت لازمی ہے ، اسکے ساتھ ساتھ ہم آپس میں تعاون کریں تاکہ ان طبی نصیحتوں اور ارشادات کو با آسانی ہم سب اپنے اوپر نافذ کر سکیں ، کسی بھی صورت ان طبی ارشادات و نصیحتوں میں کوتاہی شرعا جائز نہیں ہے اسلئے کہ یہ پوری بشریت کی عموما اور خاص کر مؤمنین کی جان کی حفاظت سے وابستہ ہے ۔
۳ دعاؤں کوخصوصی اہتمام دیں اسلئے کہ دعا رحمت الہی کا واسطہ اور ذریعہ ہے اور خاص کر حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیھما السلا م سے وارد ہونے والی اس دعا کے فقرے کومعرفت الہی اور پختہ یقین و اعتقاد کے ساتھ دہراتے رہیں (أَدِمْ مُلْكَكَ عَلَى مُلْكِكَ بِلُطْفِكَ الْخَفِيِّ)،اس لئے کہ بعض معتبر روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ زندگی کی نفسیاتی راحت اور رحمت صحیح عقائد پر یقین اور معرفت الہی کی مرہون منت ہے ، اور یہ بھی لازمی ہے کہ ہمیں اس بات پر پختہ اعتقاد اور یقینی علم ایسا ہو کہ جہاں شک و شبہ کی رتی برابر بھی گنجائش نہ ہو کہ خدا ہی ہر چیز کا خالق ہے اور پوری دنیا و آخرت کے امور صرف اور صرف اس کے دست قدرت میں ہیں ۔ اللهم بك لذنا وعليك توكلنا وإليك أنبنا وإليك المصير؛ فارحمنا وتب علينا إنّك أنت التواب الرحيم ( پروردگار ہم تیری پناہ کے محتاج ہیں ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور ہمیں صرف اور صرف تم ہی پر بھروسہ اور توکل ہے ، گناہوں کو چھوڑ کر تیری بارگاہ میں پلٹ آئے ہیں ، ہماری دنیا و آخرت تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، ہم پر رحمت فرما اور ہماری طرف اپنی نظر رحمت پھیر دے بیشک تو ہی عطف و رحمت اور رحم کرنے والا ہے ۔ والسلام