حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،این آر سی اور سی اے اے کے خلاف ہوئے مظاہروں کے ملزمین کے ساتھ حکومت اتر پردیش کا جو رویہ ہے اس کے خلاف ہر طرف سے شدید آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ایک طرف تو لوگ کورونا کی وجہ سے بدتر حالات سے گزر رہے ہیں تو وہیں، دوسری طرف حکومت اتر پردیش کی انتقامی کارروائیوں نے ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔
مولانا سید حسین مھدی نے بتایا کہ جمعرات ۱۹ دسمبر 2019 کو لکھنو میں عوامی احتجاج میں ڈاکٹر کلب سبطین نوری اور دیگر علماء بھی شامل ہوئے اور پر امن احتجاج کیا جسکی گواہ وہاں موجود خود انتظامیہ ہے۔ ان لوگوں نے احتجاج ضرور کیا لیکن کسی طرح کی شدت پسندی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن کچھ شر پسند عناصر نے تخریب کاری کی۔ جس کے بھگتان میں آج پر امن احتجاج کرنے والوں سے بھرپائی کی جا رہی ہے۔ پر امن احتجاج کرنے والوں پر اس طرح سختی خود ہماری جمہوریت اور آزادی کو زیر سوال لاتی ہے۔ شرپسند عناصر کے خلاف کاروائی ہونی چاہئیے اور انکو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئیے لیکن بے گناہوں کو سزا دینا مناسب نہیں۔ اس کی مکمل جانچ ہو اور گناہگار کو سزا ملے۔ لیکن چونکہ ڈاکٹر کلب سبطین نوری اور دیگر جو علماء شامل ہوئے ملزم ہیں مگر مجرم نہیں لھذا جب تک جرم عدالت میں ثابت نہ ہو جائے کوئی کاروائی نا مناسب ہے۔
واضح رہے کہ لاک ڈاون کے سبب معاشی تنگی جھیل رہے لوگوں بالخصوص ان ملزمین کے ساتھ ،جن پر مظاہروں کے درمیان توڑ پھوڑ کرنے اور سرکاری پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے الزامات ہیں،غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے۔ملزمین کو ریکوری کے نوٹس بھیجے جارہے ہیں۔ تھانوں میں بلایا جارہا ہے۔ پولس کی جانب سے گرفتاری اور تخریب مکان وغیرہ لے نام پر ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔