حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نجف: حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ عراق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہینس پلیشرٹ نے حضرت آیت اللہ علی سیستانی سے ملاقات کی جس میں بہت سارے اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ان معاملات میں سب سے پہلے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں بات ہوئی جو کہ اگلے سال معنقد ہونا ہے اور ان کو شفاف بنانے کے لیے ضروری اقدامات پر بات چیت کی گئی۔ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ ان انتخابات میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اس مقصد کے لیے کسی بھی سیاسی وابستگی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ پس یہ طے پایا کہ اقوام متحدہ کے بورڈ میں متعلقہ محکمہ جات کے ساتھ مل کر شفافیت اور مانیٹرنگ کے عمل پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اس تمام کام کا مقصد جلد الیکشن کا انعقاد نہیں ہے تاہم ملک میںصحت، معیشت، سیاست اور دیگر بحرانوںسے ملک کو نکالنے کے لیے یہ واحد پر امن ذریعہ ہے اس لیے شہریوںکے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے سیاسی پسند کے پیش نظر کسی بھی دباؤ کے بغیر اس ملک کی سیاسی قیادت کا انتخاب کریں اور منتخب نمائندے موجودہ مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔
انتخابات میں مزید دیر یا ضروری تیاری اور شرائط کے بغیر انتخابات کا انعقاد شہریوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہ ہوگا اور یہ ملک کے مسائل میں اضافے کا سبب بنے گا اور اللہ نہ کرے یہ ملک میں قائم اتحاد کی فضا کو بھی پارہ پارہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں کو سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
دوسری چیز، موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سماجی انصاف بشمول بارڈر کراسنگ اور سیکورٹی فورسز کی کارکردگی میں بہتری جیسے اقدامات میں بہتری لائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اپنی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی اسلحہ ضبط کرے اور مسلح قوتوں کے مخصوص گروہوں کے زیر اثر علاقوں کو تقسیم کے عمل سے بچائیں۔
حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ بدعنوانی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور غیرروایتی اقدامات کرے اور اس معاملے میںتمام کیسز کو دوبارہ کھولا جائے تاکہ کہ بدعنوان عناصر کو قرار واقعی سزا دی جاسکے اور ان سے ملک کی لوٹی ہوئی متاع واپس لی جاسکے۔
حکومت پر زوردیا گیا کہ وہ گزشتہ برس عوامی تحریک کے آغاز شے اب تک ایسے لوگ جنہوںنے مجرمانہ افعال جیسا کہ مظاہرین ، سیکورٹی فورسز اور معصوم شہریوںکے خلاف قتل ، تشدید، عوامی مال کی لوٹ ار اور اغوا جیسے مجرمانہ افعال سرانجام دیے ان کی شناخت کرے اور ان کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دے۔
ایسے مجرمانہ سرگرمیوںکو دوبارہ سرزد ہونے سے روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس طرحکے قبیح افعال سرانجام دینے والوںکو قانون کے کٹہرے میںلایا جائے اور اس ضمن میں انصاف کا مطالبہ پورا کیا جائے۔
تیسرا اہم نکتہ،قومی خودمختاری کا تحفظ، اس کی خلاف ورزی کی روک تھام اور ملک کے اندوونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا عوامی ذمہ داری ہے اور مقصد کے لیے بحیثت قوم یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ ذاتی اختلافات اور ذاتی فوائد کی موجودگی میںاس مقصد کا حصول یقینا ناممکن ہے۔ اس لیے مختلف پارٹیوںکو چاہیے کہ وہ ملک کی خومختاری، استحکام اور سیاسی فیصلوںکی آزادی کے لیے یکجا ہو کر کام کریں۔