علامہ محمد رمضان توقیر، مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان نے کہا کہ ہماری آنکھوں میں آج تک وہ مناظر نقش ہیں ہماری سماعتوں میں آج تک وہ صدائیں گونج رہی ہیں اورہماری یاداشتوں میں آج تک وہ تاریخ محفوظ ہے جب ہم قم المقدسہ ایران کی روحانی اور علمی سرزمین پر حوزہ علمیہ میں کسب ِ فیض اور حصول ِ علم کے لیے موجود تھے۔ اس زمانے میں انقلاب ِ اسلامی ایران اپنے اوائل کے سال گذار رہا تھا۔ امام ِ راحل اور رہبر ِ کبیر حضرت روح اللہ الموسوی الخمینی کا بابرکت وجود انقلاب کی نگرانی فرما رہا تھا۔ ایک وارفتگی کا ماحول تھا جس کے تحت انقلاب کے ساتھ جہاں اپنی عقیدتوں کا اظہار ہورہا تھا وہاں انقلاب کی ترقی و مضبوطی کے لیے شبانہ روز کاوشیں جاری و ساری تھیں۔دنیا بھر سے جہاں انقلاب اسلامی کی آمد اور حکومت ِ اسلامی کے قیام کی مبارکبادیں وصول ہورہی تھیں وہیں پر دنیا کے مختلف حصوں بالخصوص اس زمانے کی سپر طاقتوں کی طرف سے تنقید و تضحیک اور سازشوں کا سلسلہ بھی شروع تھا۔
انقلاب ِ اسلامی کا پیغام دنیا بھر میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا اور دنیا بھر کی اسلامی و غیر اسلامی حریت پسند تحریکیں اس انقلاب سے استفادہ اور رہنمائی حاصل کر رہی تھیں اور اپنی جدوجہد میں نکھار پیدا کرکے ایک نیا ولولہ حاصل کررہی تھیں۔انقلاب کے تعارف میں وسعت کے سبب حوزہ علمیہ میں پوری دنیا سے طلباء ہزاروں کی تعداد میں تشریف لا رہے تھے جس کی برکت سے ہمیں پوری دنیا میں اسلام‘ اسلامی انقلاب‘ اسلامی تحریکوں اور سیاسی پیش رفت کے حوالے سے آگاہی حاصل ہو رہی تھی۔ دوسری جانب قم المقدسہ سمیت ایران کے مختلف شہروں اور علاقوں میں انقلاب کے لیے قربانیاں دینے والے شہداء کی قربانیوں کے آثار موجود تھے۔ قبروں کی مٹی خشک نہیں ہوئی تھی۔ شہداء کے خون کی خوشبو ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ انقلاب ِ اسلامی کو کمزور کرنے‘ انقلاب کے خلاف سازشیں کرنے اور انقلاب کو خدانخواستہ ختم کرکے اپنے انجام تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
فطری طور پر طلباء میں بے چینی پیدا ہوئی کہ ان داخلی اور خارجی سازشوں کے بعد انقلاب کا مستقبل کیا ہوگا؟؟ تو رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ اپنے پر حکمت‘ شیریں اور مدلل خطاب سے ہم سب کی ڈحارس بندھاتے‘ ہمارے حوصلے بلند کرتے‘ ہماری ہمتوں میں اضافہ فرماتے اور ہمیں انقلاب کو محفوظ رکھنے کے سلیقے بتاتے۔ اسی زمانے میں دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف نظام ہائے حکومت موجود تھے۔ روسی کیمونزم بھی اپنی طاقت میں تھا۔ چینی سوشلزم بھی اپنے قدم جما چکا تھا۔ امریکی جمہوریت بھی اپنا لوہا منوا چکی تھی۔ عرب بادشاہت بھی اپنے دوام کے خواب دیکھ رہی تھی۔ اسی طرح دنیا پر حاکمیت اور بالادستی قائم کرنے کی رسہ کشی بھی عروج پر تھی اور سپر طاقتوں کے درمیان طاقت و تسلط کی جنگیں بھی خونریزی کے ساتھ جاری تھیں۔
درج بالا منظر میں عالمی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار انقلاب ِ اسلامی ایران کے بارے میں اپنی اپنی پیش گوئیاں و پیشین گوئیاں دے رہے تھے۔ اسلام کو بطور نظام ناکام قرار دینے والے ترقی پسند اور لادین عناصر انقلاب اسلامی ایران کو ناکام اور عارضی کامیابی قرار دے رہے تھے جبکہ ایران سے مخاصمت رکھنے والی سپر طاقتیں اور ان کے ہم نشین ممالک انقلاب کے ختم ہوجانے کی تاریخیں دے رہے تھے۔ اس کے مقابل رہبر ِ انقلاب اور ان کے نائبین اس انقلاب کو مستقل‘ دیرپا‘ دائمی حتی کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے آخری انقلاب کے ساتھ متصل ہونے تک زندہ رہنے کی نوید سنا رہے تھے۔ دنیا میں بہت سارے انقلابات کو اسی زمانے میں ناکام ہوتا دیکھنے والی آنکھیں ایرانی انقلاب کا حشر بھی کچھ ایسا ہی توقع کررہی تھیں لیکن قدرت کے فیصلے ہی کچھ اور تھے اور اللہ نے اس انقلاب کے لیے اپنے ہاں کچھ اور ہی طے کیا ہوا تھا۔
دنیا کے دیگر ممالک یا عرب خطوں پر قابض حکمرانوں کی باتوں اور خیالات پر تبصرہ نہ کیا جائے اور صرف امریکہ و اسرائیل کے صدور اور حکمرانوں کے اعلانات‘ عزائم اور پابندیوں ہی کو دیکھ لیا جائے تو ہمیں اس انقلاب کے پس ِ پشت غیبی تائید و حمایت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ۹۷۹۱ء کے امریکی و اسرائیلی صدر سے لے کر ۱۲۰۲ء کے ٹرمپ اور نیتن یاہو تک ہر کسی نے انقلاب ِ ایران کے خلاف پوری طاقت سے سازشیں کیں۔ پوری قوت شدت سے اقتصادی پابندیاں لگائیں۔ پورے جوش کے ساتھ ہمہ قسمی بائیکاٹ کئے۔ اعلانیہ مخالفتیں کیں۔ اقوام متحدہ‘ سلامتی کونسل‘ جی ایٹ‘ او آئی سی‘ عرب لیگ سمیت کسی ادارے کو ایران کے خلاف استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ انقلاب کے بعد کے ایران کو دہشت گرد‘ انتہا پسند‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا اور دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والا پیش کیا۔ حتی کہ ایران پر کئی سال جنگیں مسلط کیں اور اس لمحے تک جنگوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل میں حکومت سنبھالنے والا ہر صدر ایک نئے عزم کے ساتھ ایرانی انقلاب کو ختم کرنے اور ایران کو تاریخی سبق سکھانے کے اعلانات کرتا رہا۔ ہر بار یوں لگتا تھا جیسے اس بار تو ایرانی انقلاب گیا ہی گیا۔ کہاجاتا تھا کہ جب تک امام خمینی ؒ زندہ ہیں تب انقلاب زندہ رہے گا اس کے بعد انقلاب بھی ختم ہوجائے گا یا پھر کمزور ہو جائے گا اور انقلاب کی قیادت توٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ لیکن رہبر ِ کبیر حضرت امام خمینی ؒکے بعد رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نے جس طرح انقلاب کی زمام سنبھالی اور اسے آگے لے کر بڑھے۔ ہر امریکی اور اسرائیلی صدر کی سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ جنگوں میں حکمت و سیاست کے اعلی جواہر دکھائے۔ غیرت ِ ایمانی اور حمیت ِ اسلامی کے ذریعے ایرانی قوم اور عالم ِ اسلام کو جوڑ کر رکھا۔ عالمی سیاسی مہروں کو اپنی شفاف سیاسی چالوں سے چاروں شانے چت کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور اپنی اعلی خداداد صلاحیتوں سے انقلاب ِ اسلامی کو محفوظ رکھتے ہوئے مسلسل ارتقاء و استحکام کی طرف لے چلتے رہے۔
آج کی دنیا انگشت بدنداں ہے کہ اتنی بھرپور اور شدید سازشوں کے باوجود انقلاب زندہ نہیں بلکہ تازہ ہے۔ طویل جنگوں میں لاکھوں شہداء دینے کے باوجود ملت ِ ایران پر عزم و مطمئن ہے۔ ہزاروں معاشی و اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایرانی معیشت طاقتور سے طاقتور ترین ہو رہی ہے۔ ایٹمی پیش رفت بھی ایرانی انقلاب کی نگرانی میں ہے اور سائنسی ترقی بھی ایرانی انقلاب کی نگرانی میں ہے۔ ملکی انفراسٹرکچر بھی اسی انقلاب کے ذریعے قائم و دائم ہے اور مذہبی علوم کی ترقی بھی اسی انقلاب کے قائدین کے ذریعے ہورہی ہے۔ یہ انقلاب نہ صرف اپنے ملک یعنی ایران کے لیے نعمت ثابت ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کے لیے امید کی کرن بن رہا ہے۔ پوری دنیا کی اسلامی اور حریت پسند تحریکوں کے لیے رہنماء ثابت ہورہا ہے۔ اور اس انقلاب کے ہمہ قسم اثرات اور فیوض و برکات پوری دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہے ہیں۔
اتنی زیادہ طاقت‘ اتنی زیادہ کامیابیاں‘ اتنی بھر پور استقامت اور اتنی تیز پیش رفت اگرچہ رہبر ِ معظم اور ان کے ساتھیوں کی ذہانت و حکمت کا سبب ہے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اس کے پس پردہ یقینا کوئی غیبی طاقت و قوت ہے وہ یا خدا ہے یا اسی خدا کی معین کردہ ہستی۔ دعا ہے کہ انقلاب ِ اسلامی کو اس قدر دائمی دوام حاصل ہو کہ یہ انقلاب ِ مہدی ؑ کے ساتھ متصل ہوجائے۔