۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رهبر انقلاب

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کو مغربی ایشیا میں پسپائی پر مبنی سفارت کاری کا سلسلہ روکنے والا سب سے موثر عنصر قرار دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ قدس فورس نے علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی خود مختار اور پروقار پالیسی کو وجود عطا کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام، یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر والی اپنی تقریر میں اسلامی جمہوریہ ایران میں قدس فورس کے کردار کے بارے میں فرمایا کہ ان دنوں ملک کے بعض حکام سے ایسی باتیں سننے میں آئیں جو تعجب خیز اور افسوس ناک ہیں۔ ہم نے سنا کہ اسلامی جمہوریہ کے دشمن اور مخالف ذرائع ابلاغ نے ان باتوں کو نشر کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انسان یہ باتیں سن کر واقعی افسوس کرتا ہے، ان میں بعض باتیں دشمن کی معاندانہ باتیں ہیں، امریکہ کی باتوں کو دہرایا گيا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ امریکی تو برسوں سے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ سے ناراض اور پریشان ہیں، اسی وجہ سے قدس فورس سے ناراض ہیں، اسی وجہ سے شہید سلیمانی سے بھی ناراض تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے شہید سلیمانی کو شہید کیا۔ جو چیز بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے فکری اثر و رسوخ کا سبب بنے وہ ان کی نظر میں بری ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے یاددہانی کرائی کہ ملکی پالیسی کے پروگرام گوناگوں اقتصادی، عسکری، سماجی، علمی، ثقافتی پروگراموں نیز سفارتی روابط اور خارجہ تعلقات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ساری چیزیں مل کر کسی ملک کی پالیسی کے خد و خال طے کرتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ سارے شعبوں کو باہمی  ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے اور ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر ایک شعبہ دوسرے شعبے کی نفی کرے  اور دوسرا شعبہ اس پہلے شعبے کی نفی کرے تو یہ بے معنی ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے جو اسلامی جمہوریہ کے عہدیدار سے، اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران سے سرزد نہیں ہونی چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے قدس فورس کے کردار کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ واقعی قدس فورس مغربی ایشیا میں پسپائی پر مبنی سفارت کاری کا سلسلہ بند کرنے والا سب سے موثر عنصر ہے، قدس فورس نے مغربی ایشیا میں اسلامی جمہوریہ کی خود مختار پالیسی اور اسلامی جمہوریہ کی پروقار سیاست کو وجود عطا کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ مغربی طاقتوں کی ضد ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا رجحان ان کی طرف ہو اور وہ ان کے پرچم تلے آگے بڑھے وہ بھی فرماں برداری کی شکل میں، کیونکہ برسوں  تک یہی صورت حال تھی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ قاجاریہ دور کے اواخر میں بھی اور اور پہلوی حکومت کی طولانی مدت کے دوران بھی ایران مغرب کی سیاست کے زیر تسلط تھا۔

آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب نے ایران کو مغرب کے قبضے سے باہر کھینچ لیا جس کے بعد ان چالیس برسوں میں مغربی ممالک، یورپ اور امریکہ نے مستقل یہ کوشش کی کہ اس ملک پر ان کا پرانا تسلط بحال ہو جائے، اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ جب چین، روس اور اپنے ہمسایہ ممالک سے سیاسی و اقتصادی روابط قائم کرتا ہے تو انھیں بہت غصہ آتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وہ ہمارے کمزور ہمسایہ ممالک پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انھیں روکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان چیزوں کا ہم خود مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ مجھے ایسی کئی مثالیں یاد ہیں کہ جب ہمارے ہمسایہ ممالک کے اعلی رتبہ حکام ایران کا سفر کرنا چاہتے تھے اور امریکیوں نے جاکر ان کا دورہ کینسل کروا دیا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتیں ایران کی ہر طرح کی سفارتی سرگرمیوں کے خلاف ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ان کی اس خواہش کو دیکھ کر پسپائی اختیار نہیں کر سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں خود مختاری کے ساتھ، با عزت طریقے سے اور پوری محنت اور بھرپور توانائی سے کام کرنا ہے اور علاقے میں یہی کام قدس فورس نے کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس نکتے کا بھی ذکر کیا کہ دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں وضع نہیں کی جاتی بلکہ ساری دنیا میں خارجہ پالیسی وزارت خارجہ سے بالاتر ادارے وضع کرتے ہیں اور  ہمارے ملک میں وہ بالاتر ادارہ قومی سلامتی کی سپریم کونسل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان بالاتر اداروں میں ملک کے اعلی رتبہ حکام موجود ہوتے ہیں اور ملک کی خارجہ پالیسی وضع کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بے شک خارجہ پالیسی طے کرنے میں وزارت خارجہ کی بھی شرکت ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ فیصلے وزارت خارجہ کی سطح پر ہوتے ہوں، نہیں، وزارت خارجہ پر اجراء کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .