حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کراچی/ مجلس وحدت مسلمین سولجربازار یونٹ ضلع جنوبی کراچی کی جانب سے مسجد و عزا خانہ ابو طالبؑ سولجر بازار میں ہفتہ وار درس کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس ہفتہ ’مقبوضہ فلسطین کی حالیہ صورتحال‘ کے موضوع پر فکری نشست منعقد کی گئی ۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا کہ معرکہ سیف القدس نے فلسطین کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے ۔ گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل امریکہ سے جنگ بندی کے لئے بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا ۔ فلسطینی ظاہری طور پر کمزور ہے مگر انہوں نے ایسی طاقت کا مقابلہ کیا جس کی پشت پناہی عالمی طاقتیں کرتی ہیں .اسرائیل کا حالیہ حملہ قدس شریف کو یہودیانہ کے لئے تھا ۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل شیخ جراح کا علاقہ خالی کروانا چاہتا تھا۔فلسطینی اپنے حق کے لئے کھڑے ہوئے اور پوری دنیا میں ان کے لئے حمایت سامنے آئی. فلسطینیوں نے کامیاب جدو جہدسے ثابت کردیا کہ مزاحمت میں عزت،وقار اور کامیابی ہے ۔ اس سے پہلے بیت المقدس کے علاقے سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہیں ہوتی تھی،مگر اب اس علاقے سے بھی اسرائیل کو جواب دیا جارہا ہے. فلسطینیوں نے حالیہ جنگ میں تین ہزار میزائل مارے۔ہر میزائل کو روکنے کےلئے اسرائیل کا ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر کا خرچہ ہوا ۔ پانچ سو راکٹ اسرائیل میں گر ے ۔ اسرائیل کے فوجی مارے گئے ۔ اسرائیل اگر اپنے وجود اور رقبہ کو بڑھا نہیں سکتا تو یوں سمجھے کہ وہ ذلت و زوال کی جانب گامزن ہے جبکہ اب عالم یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے والا اسرائیل اپنے گرد دیواریں بنانے پر مجبور ہے۔ اسرائیل چند سو مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کے سامنے تسلیم ہوگیا ۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی حیثیت علاقہ میں ایک جواری جیسی ہے ،جو اسرائیل کو بچانے کے لئے ایک کے بعد ایک چال چلتا ہے ۔ داعش اسرائیل کو سہارا دینے کے لئے بنائی گئی۔گریٹر اسرائیل کے لئے عراق ،شام اور لبنان کو دو دو حصوں میں تقسیم کرنا اور ان چھ ٹکڑوں میں اسرائیل کو مزید پھیلانا چاہتے تھے،مگر عالمی اسلامی مزاحمت نے داعش کا پروجیکٹ فیل کردیا ۔ امریکہ سینچری ڈیل کے ذریعہ یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ ہم نے اسرائیل کو جتوادیا ہے اوراس ذریعے سے فلسطین کے مسئلہ کو دبانا چاہتا تھا ۔ مگر ڈیل آف سینچری ناکام ہوگئی اور ٹرمپ کے ساتھ سینچری ڈیل بھی غرق ہوگئی ۔ نیا امریکی صدر جوبائیڈن سینچری ڈیل پر بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے ۔ فلسطینی اپنے حق واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کی کامیابی عالم اسلام کی کامیابی ہے۔فلسطینیوں کو مضبوط بنانے میں امام خمینی، رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور شہید سردار سلیمانی کا بنیادی کردار ہے ۔ شہید سلیمانی کو فلسطینیوں نے شہید قدس قرار دیا ۔ غزہ جو کہ ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں غذائی اجناس بھی پہنچانا بہت مشکل ہے ،وہاں پر شہید سلیمانی نے اسلحہ پہنچایا اور فلسطینیوں کو اسرائیل سے لڑنے کے لئے ٹیکنالوجی فراہم کی ۔ اس سے پہلے فلسطین کا مسئلہ 1979سے قبل ختم ہوچکا تھا ۔ عرب ممالک کی شکست در شکست کے بعد اسرائیل فلسطین پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوچکا تھا ،مگر انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی کی کوششوں سے یہ مسئلہ پھر سے اجاگر ہوا ۔ امام خمینی نے انقلاب کے بعد اسرائیلی سفارتخانہ بند کردیا ۔ جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا ۔ فلسطینی مجاہدین کی ہر طرح سے مدد کی اور فلسطین کے مسئلہ کو ایک عالمی تحریک بنایا ۔ امام خمینی جانتے تھے کہ اسرائیل کو محض فلسطین تک محدود رہنے کےلئے مسلط نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسرائیل عالم اسلام پر قبضہ چاہتا ہے ۔ اسی لئے امام خمینی نے شروع سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد شروع کی ۔ 1980 میں فلسطینیوں کے لیڈر یاسر عرفات نے امام خمینی سے ملاقات کی تو کہا کہ ہمارے حقیقی وارث آپ ہیں ۔
ڈاکٹر صابر ابو مریم کا کہنا تھا کہ امام علیؑ کے قول کہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بن کر رہو کے تحت فلسطینیوں کےلئے آواز اٹھانا ہم سب کی شرعی ذمہ داری ہے ۔ نشست کے اختتام پر شہدائے سانحہ امام بارگاہ علی رضاؑ،شہدائے سانحہ جڑانوالہ اور شہدائے فلسطین کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اس سے پہلے برادر شہریار مہدی نے امام زمانہؑ کی شان میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔