حوزہ نیوز ایجنسی کی روس ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے اکتوبر 2020 کے بعدسے قریب 10 پاکستانیوں کو بغیر کسی وضاحت کے اپنے ملک سےبے دخل کردیا ہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ تارکین وطن کے خلاف اماراتی اقدامات کی ایک وجہ مذہب کا معاملہ ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہاکہ ملک بدر کیے جانے والے ہر 10 افراد متحدہ عرب امارات میں رہنے والے تھے جن میں سے بیشتر 40 سال سے زیادہ عرصے سے اس ملک کی متعدد کمپنیوں میں مینیجرز، سیلز عملہ، چھوٹی کمپنیوں کے سی ای او، کارکنوں اور ڈرائیوروں کی حیثیت سے کام کررہے تھے تھے یہاں تک کہ کچھ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نےملک بدر کیے جانے والے کسی بھی فرد کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا یہاں تک کہ انھیں اپنے دفاع کا بھی موقع نہیں دیا، انسانی حقوق کے نگراں ادارے نے زور دے کر کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اماراتی حکام نے مذہب کی بنیاد پر تارکین وطن افراد کو نشانہ بنایا ہے جبکہ علاقائی تناؤ میں اضافے کے دوران متحدہ عرب امارات کے حکام نے لبنان، عراق، افغانستان اور پاکستان سے آنے والے متعدد شیعہ تارکین وطن افراد کے ساتھ آمرانہ انداز میں سلوک کیا ہے۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اس سے قبل سیکڑوں لبنانیوں کو بغیر کوئی وجہ بتائے ملک بدر کیا ہے جو سالوں سےاس ملک میں مقیم تھے۔