۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
27 جون 1981 کا وہ ہولناک واقعہ جو آیت اللہ خامنہ ای کو پیش آیا

حوزہ/ امام جماعت حیران و مبہوت مسجد کے بیچ میں کھڑے تھے۔ ان کی نظر ٹیپ ریکارڈر پر پڑی جو دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر کے اندر مارکر پن سے لکھا تھا: "اسلامی جمہوریہ کو فرقان گروپ کی عیدی۔" 

حوزہ نیوز ایجنسیبنی صدر (صدر ایران) کی برخاستگی کو چار پانچ دن گزر چکے تھے۔ ایران عراق جنگ اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف باغی گروہ منافقین (ایم کے او) کی مسلحانہ بغاوت کی خبریں موضوع بحث بنی ہوئي تھیں۔ آیت اللہ خامنہ ای محاذ جنگ کا دورہ کرکے لوٹے تھے اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں پہنچے اور ملاقات کے بعد سنیچر کے دن کے اپنے ہفتہ وار پروگرام کے مطابق جنوبی تہران کی ایک مسجد میں تقریر کے لئے روانہ ہو گئے۔ 
آیت اللہ خامنہ ای کی گاڑی جماران (تہران میں امام خمینی کی اقامتگاہ) سے روانہ ہوئی تھی اس میں ایک خاص مہمان بھی تھے۔ پائلٹ عباس بابائی جو سپریم کونسل برائے دفاع میں امام خمینی کے نمائندے سے اپنی باتیں بیان کرنا چاہتے تھے۔ گاڑی اذان ظہر سے آدھا گھنٹہ قبل مسجد ابو ذر پہنچ گئی۔ گفتگو کا سلسلہ مسجد کے اندر جاری رہا۔ 
نماز ظہر ختم ہو گئی۔ آقا ڈائس کی جانب گئے۔ مومنین نماز کی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگوں کے سوالات کی پرچیاں آقا کو دی جا رہی تھیں۔ بعض سوالات کا لہجہ بہت سخت تھا، بعض سوالات غیر مربوط بھی تھے۔ 
آقا نے تمہیدی گفتگو شروع کی پھر آپ نے کہا کہ آج کل لوگوں کے درمیان افواہیں بہت پھیلی ہوئی ہیں میں ان میں کچھ کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ 
اس دوران مجمع کے بیچ سے ایک ٹیپ ریکارڈر ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہوتا ہوا ایک میانہ قد نوجوان تک پہنچا۔ اس نے چیکس والی شرٹ اور اس پر کوٹ پین رکھا تھا۔ بال گھنگرالے تھے۔ وہ ڈائس کے قریب گیا اور ٹیپ ریکارڈر کو ڈائس پر رکھ دیا۔ اس نے مقرر کے دل کے ٹھیک سامنے ٹیپ ریکارڈر رکھ دیا اور انگلی پلے کے بٹن پر رکھ دی۔ ٹک ٹک کی آواز آئی لیکن وہ چلا نہیں۔ نوجوان اسی طرح اسے چھوڑ کر چلا گيا۔
ایک منٹ بھی نہیں ہوا تھا کہ لاؤڈ  اسپیکر سے سیٹیوں کی آواز آنے لگی۔ آقا تقریر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ حضرات اس لاؤڈ اسپیکر کو ٹھیک کیجئے۔ پھر خود بائیں جانب ہٹ گئے، ڈائس سے کچھ پیچھے چلے گئے اور وہاں سے اپنی گفتگو جاری رکھی کہ امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں صرف عرب معاشرے میں نہیں بلکہ تمام سماجوں میں عورت مظلوم تھی۔ نہ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی، نہ معاشرے میں کوئي رول ادا کرنے کی اجازت تھی، نہ سیاسی مسائل میں اسے آگے بڑھنے دیا جاتا تھا اور نہ دیگر میدانوں میں۔۔۔۔ دھماکہ!!

آقا تقریر کے دوران مجمع کی طرف رخ کرکے کھڑے تھے، قبلے کی جانب پشت تھی، یک بارگی 45 ڈگری بائیں جانب گھوم کر زمین پر گر پڑے۔ باڈی گارڈ فورا ان کے قریب پہنچ گیا۔ مسجد چھوٹی تھی اور اسی ایک باڈی گارڈ نے آقا کو مسجد سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ 
امام جماعت حیران و مبہوت مسجد کے بیچ میں کھڑے تھے۔ ان کی نظر ٹیپ ریکارڈر پر پڑی جو دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر کے اندر مارکر پن سے لکھا تھا: "اسلامی جمہوریہ کو فرقان گروپ کی عیدی۔" 
مسجد کے باہر کچھ لمحے کے لئے آقا کو ہوش آیا، اپنا سر اٹھایا لیکن پھر سر نیچے ڈھلک گیا۔ باڈی گارڈ بلیزر گاڑی کو ہوا کی رفتار سے لیکر بھاگے۔ 
اسپتال کے راستے میں آقا کو جب بھی ہوش آتا وہ زیر لب شہادتین پڑھتے تھے۔ ان کے ہونٹ اور پلکوں میں خفیف سی جنبش ہوتی تھی۔ 
قزوین روڈ پر گاڑی ایک چھوٹی سی کلینک کے اندر داخل ہوئی۔ پانچ لوگ ہاتھوں میں اسلحہ لئے ہوئے آقا کو کلینک کے اندر لیکر دوڑ رہے تھے۔ 
صورت حال ایسی تھی کہ کسی نے شہر کے امام جمعہ کو نہیں پہچانا۔ ایک ڈاکٹر نے دل کی دھڑکن چیک کی اور کہا کہ اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ 
ایک باڈی گارڈ نے پوچھا کہ اب کہا لے جائیں؟ نرس نے جواب دیا بہار لو اسپتال جوادیہ پل۔ گاڑی پھر ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ 
گاڑی کو اسپتال کے عقبی دروازے سے کمپاؤنڈ کے اندر لے جایا گيا۔ آقا کو آپریشن روم میں پہنچایا گيا۔ 
دیر رات تک آپریشن چلتا رہا۔ مگر اس کے بعد سیکورٹی وجوہات کی بنا پر آقا کو وہاں رکھنا مناسب نہیں تھا۔ ہیلی کاپٹر منگایا گیا اور انھیں دل کے اسپتال میں پہنچایا گيا۔ 
امام خمینی کا بار بار پیغام آ رہا تھا اور وہ دریافت کر رہے تھے کہ آقا سید علی کی طبیعت کیسی ہے؟ 
رفتہ رفتہ آقا کی حالت میں بہتری آئی۔ 
ٹیلی ویژن والوں کی ایک ٹیم آئی انٹرویو کے لئے۔ اسے انتظار کرنا پڑا۔ آقا کو ہوش آ گیا۔ نامہ نگار نے خیریت دریافت کی تو آقا نے جواب دیا کہ میں بحمد اللہ بالکل ٹھیک ہوں اور رضوانی شعیرازی کا شعر پڑھتے ہوئے امام خمینی کو مخاطب کیا: 
 «بشکست اگر دل من به فدای چشم مستت سر خُمِّ می سلامت شکند اگر سبویی»
 (یعنی اگر میرا دل ٹوٹ گيا تو کوئی بات نہیں وہ تمہاری مدہوش آنکھوں پر قربان، اگر پیمانہ ٹوٹ گیا تو کوئی بات نہیں، جام مئے کا سرے پر کوئی آنچ نہ آئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .