۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
حجت الاسلام سید ابراہیم رئیسی کو تیرہویں صدر کے طور پر ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے صدر مملکت ابراہیم رئيسی کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انصاف اور بدعنوانی سے مقابلے جیسے انقلاب کے اقدار پر خاص توجہ دینے پر ان کی بارہا تاکید کو، درست رجحان قرار دیا اور کہا کہ یہ راستہ جاری رہنا چاہیے۔ نیز منتخب صدر کے عوامی ہونے کے نعرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں نصیحت کی کہ اس نعرے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور حقیقی معنی میں عوام کے ساتھ رہیں اور عوام کے ساتھ سچائي سے بات کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،تہران/ ایران میں تیرہویں دور کے صدارتی انتخابات کے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا پروگرام منگل تین اگست کو رہبر انقلاب اسلامی اور ملک کے بعض حکام اور اہم عہدیداروں کی موجودگي میں امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) امام بارگاہ میں منعقد ہوا اور منتخب صدر کو ولی فقیہ نے عہدۂ صدارت پر منصوب کیا۔
اس پروگرام میں وزیر داخلہ نے رواں سال کے انتخابات کے عمل کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی اور منتخب صدر کے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا حکمنامہ پڑھے جانے کے بعد حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کی اور پھر رہبر انقلاب اسلامی نے خطاب کیا۔

آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ میں خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ وہ (عہدۂ صدارت کے) اس آغاز کو عوام اور ملک کے لیے مبارک قرار دے، خاص کر ان ایام میں جو اہلبیت علیہم السلام سے مختص ہیں۔

انہوں نے اس بات کے لیے خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس نے الیکشن کے پرمعنی عمل میں، جو دینی جمہوریت کی نشانی ہے، ایرانی قوم کو کامیاب کیا، کہا: (عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا) یہ پروگرام، جو آئین اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے شروع کی گئي سنّت پر مبنی ہے، کئي بار دوہرایا جا چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں اقتدار کی منتقلی کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر بہت سے ممالک میں یہ منتقلی کشیدگي کے ماحول میں انجام پاتی ہے۔ یہاں بحمد اللہ امن و سکون کے ساتھ انجام پاتی ہے۔ یہ دورۂ صدارت بھی خدا کے فضل و کرم سے ایسا ہی تھا۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ ملک اور اسی طرح حکام و عوام میں پائی جانے والی خردمندی، امن اور اطمینان کی بھی نشانی ہے اور سیاسی تنوع کی بھی علامت ہے۔ جن حکومتوں نے ایک دوسرے کو اقتدار منتقل کیا ہے، ان کے مختلف سیاسی رجحانات رہے ہیں۔ فطری طور پر یہ تنوع، انتخابات کی آزادی اور ان کے صحیح سالم ہونے کی نشانی ہے۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتدار کی منتقلی کو امید آفریں بتایا اور کہا: اقتدار کی منتقلی میں نئي جدت طرازیاں اور نئے عزم سامنے آتے ہیں اور یہ منتقلی ان سبھی افراد میں امید پیدا کرتی ہے جن میں خدمت کا جذبہ ہوتا ہے، خاص کر نوجوانوں میں۔

انہوں نے انتخابات کے بائيکاٹ کی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کے پالیسی ساز حلقوں میں کافی پہلے سے الیکشن کے بائيکاٹ کی ایک سازش تیار کی گئي تھی۔ ملک کے اندر بھی بعض لوگ غفلت کی بنا پر اور بعض لوگ شاید عناد کے سبب اس سازش کو آگے بڑھا رہے تھے۔ عوام نے ٹھوس جواب دیا اور انتخابات میں شرکت کی۔ عوامی شرکت بھی اچھی تھی۔ جس طرح کے حالات تھے ان کے مد نظر، عوام کی شرکت اچھی تھی اور میدان میں عوام کی بھرپور موجودگي کی غماز تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے صدر مملکت ابراہیم رئيسی کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انصاف اور بدعنوانی سے مقابلے جیسے انقلاب کے اقدار پر خاص توجہ دینے پر ان کی بارہا تاکید کو، درست رجحان قرار دیا اور کہا کہ یہ راستہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے منتخب صدر کے عوامی ہونے کے نعرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں نصیحت کی کہ اس نعرے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور حقیقی معنی میں عوام کے ساتھ رہیں اور عوام کے ساتھ سچائي سے بات کریں۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے آخر میں دشمن کی تشہیراتی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج ہمارے خلاف دشمن کی زیادہ تر کارروائياں، سافٹ وار اور میڈیا وار پر مبنی ہیں۔ وہ رائے عامہ پر مسلط ہونے کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس کام کے لیے وہ اپنے تھنک ٹینکس میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں تاکہ مختلف طرح کے پروپیگنڈوں کے ذریعے ملکوں خاص طور پر ہمارے ملک پر قبضہ کر لیں اور اسے اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب کسی قوم کی رائے عامہ، اغیار کے کنٹرول میں چلی گئی، تو اس قوم کی پیشرفت بھی، انھی کی مرضی کے مطابق ہوگي۔ ہمیں پروپیگنڈے کے میدان میں زیادہ مضبوطی اور زیادہ ذہانت سے کام کرنا چاہیے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .