حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر ایرانی فورسز کے کمانڈروں، ملکی حکام اور پینتیسویں وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں نے اتوار چوبیس اکتوبر کی صبح رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اپنے خطاب کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے آنحضرت کی ولادت کو انسان کی زندگي میں ایک نئے دور کا آغاز بتایا۔ انہوں نے وجود کے رتبے کے لحاظ سے پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مرتبے کو پوری خلقت میں عدیم المثال قرار دیا۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے قلب پیغمبر پر قرآن مجید کے نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خداوند عالم نے اپنی 'کتاب مکنون' کو پیغمبر کے قلب مبارک و مقدس پر نازل فرمایا، ان کی پاکیزہ اور مطہر زبان پر جاری فرمایا، انسان کی سعادت و کامرانی کا مکمل لائحۂ عمل ان کے سپرد کیا اور انھیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ اس لائحۂ عمل پر خود بھی عمل کریں اور اپنے پیروکاروں سے تعمیل کا مطالبہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں مسلمانوں اور مومنین کا کیا فریضہ ہے؟ دو نکات کی طرف اشارہ کیا۔ ایک، اسلام کی جامعیت کے حق کو ادا کرنے کا مسئلہ اور دوسرا اتحاد بین المسلمین۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں، ہمارے آج کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ سیاسی اور مادی طاقتیں اس بات پر بضد ہیں کہ اسلام کو ایک شخصی عمل اور قلبی عقیدے تک محدود کر دیں۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس اصرار کی وجہ، دنیا کی بڑی سیاسی طاقتوں کے اسلام مخالف منصوبوں کو بتایا اور کہا کہ اسلامی تعلیمات پوری صراحت کے ساتھ اس عقیدے کو مسترد کرتی ہیں۔ انھوں نے اسلام کی جامعیت کے حق کی ادائيگي کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام کے بارے میں خود اس کی رائے کو بیان کریں کہ وہ زندگی کے کون سے میدانوں کے بارے میں زیادہ اہتمام کرتا ہے، اسلام جو چیز بیان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دین کی فعالیت کا میدان، انسانی زندگي کا ہر پہلو ہے، انسان کے دل کی گہرائيوں سے لے کر سماجی مسائل تک، سیاسی مسائل تک، عالمی مسائل تک اور وہ تمام مسائل جو انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام کی سرگرمیوں کے دائرے میں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اسلام کے پاس انسان کی سماجی زندگي کے تمام اہم پہلوؤں کے سلسلے میں پروگرام موجود ہیں، کہا: جو قرآن سے ربط رکھتا ہے، قرآن اور احکام قرآن سے آشنا ہے وہ سمجھتا ہے کہ قرآن جس اسلام کا تعارف کراتا ہے، وہ یہی اسلام ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اسلامی معاشرے کے قائد کی حیثیت سے امام کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے علمائے اسلام سے اپیل کی کہ وہ اسلامی حکومت کے مسئلے کا تجزیہ کریں اور اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ انہوں نے دوسرے نکتے یعنی اتحاد بین المسلمین کے بارے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے میدان کے نمایاں چہروں کو یاد کیا اور انھیں سراہتے ہوئے کہا: اتحاد بین المسلمین ایک حتمی قرآنی فریضہ ہے، ہم کیوں اسے ایک اخلاقی سفارش میں تبدیل کر رہے ہیں، یہ ایک حکم ہے۔
انہوں نے اتحاد بین المسلمین کو ایک ٹیکٹک نہیں بلکہ مسلمہ اصول قرار دیا اور اس کی تصدیق میں کہا: مسلمانوں کے درمیان تعاون ضروری ہے، اگر مسلمان متحد ہوں، ایک دوسرے سے تعاون کریں تو سبھی طاقتور ہو جائیں گے یہاں تک کہ جو لوگ غیر مسلمانوں سے تعاون کرنا چاہتے ہیں وہ بھی مضبوط ہو جائيں گے اور اس میں کوئي مضائقہ بھی نہیں ہے اور وہ بڑی مضبوط پوزیشن میں ان کے ساتھ تعاون کر سکیں البتہ یہ تبھی ہوگا جب مسلمانوں کے درمیان آپسی تعاون ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان میں شیعوں پر حملوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس کا حالیہ نمونہ گزشتہ دو جمعوں کو افغانستان میں ہونے والے افسوسناک اور گریہ آور واقعات ہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کو، نماز کی حالت میں دھماکے سے اڑا دیا گيا۔ کس نے اڑایا؟ داعش نے۔ داعش کون ہے؟ داعش وہی تنظیم ہے جسے امریکیوں نے وجود عطا کیا ہے، اسی امریکی ڈیموکریٹ گروہ نے کھل کر اعتراف کیا تھا کہ ہم نے داعش کو وجود بخشا ہے، البتہ اب نہیں کہتے، اب انکار کرتے ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک ہدف نئے اسلامی تمدن کو وجود عطا کرنا بتایا اور کہا کہ یہ کام شیعہ-سنی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کو اتحاد بین المسلمین کا بہت اہم محور بتایا اور کہا: اگر مسلمانوں کا اتحاد عملی جامہ پہن لے تو فلسطین کا مسئلہ بہترین طریقے سے حل ہو جائے گا۔ ہم فلسطین کے مسئلے میں جتنی زیادہ سنجیدگي دکھائيں گے، اتنا ہی فلسطینی قوم کے حقوق کی بازیابی کے لیے، اتحاد بین المسلمین سے زیادہ قریب ہو جائیں گے۔