۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 372438
17 ستمبر 2021 - 13:41
پیاده روی اربعین

حوزہ/ اسلام کسی بھی صورت میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اگر وحشی تکفیری اٹھ کر ہمارے بنیادی عقائد اور مقدسات کو مسمار کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم حرمِ آلِ رسول کا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی تکفیریت ایک شجرہ خبیثہ ہے اور داعش کہلانے والا ٹولہ تکفیر کے شجرہ خبیثہ کی ایک شاخ ہے۔ آج ایک بار پھر ایک منظم سازش کے تحت وطن ِعزیز میں اِس تکفیری فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ تکفیری فکر پر کاربند ٹولوں کی ظاہری صورت اسلامی ہے، لیکن عملی طور پر عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف بڑی استعماری اور استکباری قوتوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ تکفیری ٹولے اور اِن کی حمایت کرنے والی حکومتیں، مکمل طور پر استکبار اور صہیونیت کی نیابت اور منصوبوں کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ اِن کا کام امریکہ اور یورپ کی استعماری حکومتوں نیز غاصب صہیونی ریاست کے مفاد کے مطابق ہے۔ تکفیریوں نے پوری دنیا میں مسلم نوجوانوں کا جوش و جذبہ منحرف کرکے رکھ دیا۔ آج پوری اسلامی دنیا کے مسلمان جوش اور جذبے کے حامل ہیں۔ اسلامی بیداری نے انہیں متاثر کیا، وہ تیار ہیں کہ اسلام کے بڑے مقاصد کے حصول کے لیے کردار ادا کریں، (لیکن) اس تکفیری سوچ نے اس جوش و جذبے کو منحرف کردیا اور بے خبر اور جاہل جوانوں کی ایک جماعت کو مسلمانوں کے سر کاٹنے اور معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام کی طرف لےگئی۔

یہ تکفیری سوچ اور تکفیر کے پیروکاروں کے جراٸم اور گناہوں میں سے ایک ہے۔ تکفیری فکر اسلامی بیداری کے سلسلے کو منحرف کرنے میں کامیاب ہوٸی، اسلامی بیداری کی تحریک امریکہ مخالف، استبداد مخالف اور علاقے میں امریکہ کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے مخالف تحریک تھی، یہ ایک ایسی تحریک تھی، جو شمالی افریقہ میں عام لوگوں کی طرف سے استکبار اور امریکہ کے خلاف شروع ہوٸی، تکفیری سوچ نے استکبار، امریکہ اور استبداد کے خلاف شروع ہونے والی اس عظیم تحریک کا رخ موڑ دیا اور اس کو مسلمانوں کے درمیان جنگ اور برادر کشی میں تبدیل کر دیا۔ آپ آج ملاحظہ کیجیے کہ آپ کے وطن عزیز میں تفرقہ اور عدم برداشت کی کیسی فضإ قاٸم کی گٸی ہے، کیا یہ حالات مستقبل میں کسی بڑے سانحے کی طرف نشاندہی نہیں کرتے۔؟

تکفیری استکبار کی خدمت میں مگن ہیں اور ہم خیالی دنیا میں سب اچھا ہو جاٸے گا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اتحاد بین المسملین کے لیے سالوں سے کی گئی کاوشیں ایک طرف اور ایک تکفیری پروپیگنڈہ ایک طرف، ہر سال ایام عزاء میں ایک مخصوص سازش کے تحت ملک کا امن و امان خراب کیا جاتا ہے اور ہم سب بہتی گنگا میں ہاتھ ڈالنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ تکفیری فتنے کے احیإء میں امریکہ، برطانیہ اور صہیونی ریاست کے خفیہ اداروں کا کیا کردار ہے؟ ان حقائق سے ہم سب کو آگاہ ہونا چاہیئے۔ سب کو علم ہونا چاہیئے کہ صہیونی ریاست کے خفیہ ادارے اس تکفیری فکر کو پروان چڑھانے میں دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ منصوبہ اور نقشہ ان کا ہے، حمایت ان کی طرف سے ہے، پیسہ ان کی کٹھ پتلی حکومتوں کی طرف سے آرہا ہے اور مقصد پوری دنیا میں خالص اسلام محمدی کے اصل چہرے کو بگاڑنا ہے۔ اسلام کو تشدد پسند دین بنا کر مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کرنا ہے۔

اب اِن حالات میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ یہ سوال غور طلب ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ داعش اور تکفیریت کا حل فقط زینبیون ہیں تو جواباً خاموشی اختیار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ مصلحت کے بھاشن سناٸے جاتے ییں اور ایسی باتیں چار دیواری میں کہے جانے والی ہیں کہہ کر مصلحت کی پوشاک پہناٸی جاتی ہے۔ جبکہ درحقيقت ہمارا دشمن بہت کمزور ہے۔ دشمن کی کمزوری کا اندازہ رہبرِ معظم کی اِس بات سے لگایا  جاسکتا ہے کہ اسلام کا دشمن جو استکبار اور عالمی سامراج ہے، گذشتہ 100 سے لیکر 150 سالہ دور کے ہر مرحلے کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔ آپ یورپ کی استعماری حکومتوں کو دیکھ رہے ہیں، جو معاشی، سیاسی مشکلات اور سلامتی کے شعبوں میں مسائل سے دوچار ہیں۔ آج یورپ کی استعماری حکومتوں کو مختلف النوع مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔

امریکہ کی حالت ان سے بھی زیادہ بدتر ہے، اخلاقی مسائل سے دوچار، سیاسی مشکلات سے دوچار، مالی اور زری Monetary مسائل سے دوچار، نہ صرف دنیاٸے اسلام میں بلکہ پوری دنیا میں صہیونی ریاست ماضی کی نسبت بہت کمزور ہوچکی ہے۔ یہ وہی ریاست ہے، جو ”نیل سے فرات تک" کا نعرہ لگا رہی تھی۔ صہیونی چلا چلا کر کہتے تھے کہ "نیل سے فرات تک کا علاقہ ہمارا" ہے، لیکن یہ ریاست 50 دن تک غزہ میں لڑنے کے باوجود فلسطينيوں کی سرنگیں فتح کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ گویا اس دشمن کی حقیقت ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں۔ امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب کا فرمان ہے: مظلوم کا دن ظالم کے دن سے ظالم کے خلاف سخت ترین دن ہوگا آج جب اِن عالمی درندوں کے حملوں کے جواب میں چند مٹھی بھر عشاق اٹھ کر کلنا عباسک یا زینب کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو پوری دنیا میں ہلچل کیوں مچ گئی؟ اپنے فتوٶں کی فیکٹریاں کیوں کھول دی گئیں۔؟

ہم نے ہمیشہ اپنے بیانات اور تحریروں میں عملاً ثابت کیا ہے کہ ہم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے مخالف ہیں۔ اسلام کسی بھی صورت میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اگر وحشی تکفیری اٹھ کر ہمارے بنیادی عقائد اور مقدسات کو مسمار کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم حرمِ آلِ رسول کا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔ ہمارا دشمن تاریخ سے نابلد ہے۔ ہم ہی فاتح میدان ہیں۔ ہم ہی فاتح بدر و حنین ہیں۔ آج اگر ایک بار پھر تکفیری سوچ کو پروان چڑھانے اور محبان اہلبیت پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی گٸی تو ہم زینبیون کی تاریخ کو دوہرانے میں ذرا تاخیر سے کام نہ لیں گے۔

آج کی کربلا میں مدافعینِ حرم کے پاک لہو نے سرزمینوں کی حدود کو ختم کر دیا ہے، اب ہر جگہ سے پاک طینیت جوان تیار ہیں کہ اپنے اعتقادات اور مقدسات کا تحفظ کریں اور قرآن کی اس آیت کے مصداق ہیں کہ *مومنوں میں سے (بہت سے) مردوں نے وہ بات سچ کر دکھاٸی، جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا، پس ان میں سے کوٸی (تو شہادت پاکر) اپنی نذر پوری کرچکا ہے اور ان میں سے کوٸی (اپنی باری کا) انتظار کر رہا ہے، مگر انہوں نے اپنے عہد میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔

جو مومن پر ہاتھ اٹھاٸے اُس کے ہاتھ کو کاٹیں گے
جو تکفیری سر کو اٹھاٸے، اُس کی گردن توڑیں گے
شام میں فتح حسینی ہوگی، قصرِ یزیدی گرا دیں گے
روضہ زینب کے یہ محافظ آخری جنگ بھی جیتیں گے

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .