۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 373140
8 اکتوبر 2021 - 13:52
مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری

حوزہ/ جو معاشرے مذہب و دھرم کو اپنی نجات کا ذریعہ گمان کرتے ہیں وہ آج بھی خوش و خرم ہیں۔ ان معاشروں کا الگ مقام و مرتبہ ہے۔ البتہ جب مذہب کو جذبات سے کھلواڑ کرنے یا جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو پھر اس کے نتائج ہمیشہ منفی ہی ہوتے ہیں۔

تحریر: مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری

حوزہ نیوز ایجنسی دنیا کی یہ حقیقت ہے کہ کوئی بشر تنہا کاروانِ حیات کو سر نہیں کر سکتا۔ ہرانسان زندگی گزارنے میں دوسرے انسانوں کے اوپر منحصر ہے۔ ہر انسان کی زندگی دوسرے انسانوں کے تعاون کے ساتھ ہی بسر ہوتی ہے۔ کوئی انسان دوسرے انسانوں کے تعاون کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ہی انسان کو حیات کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور ایک مثالی معاشرہ وہی ہوتا ہے، جس میں تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورحاجت مندوں کی حاجات کو پورا کرتے ہوئے زندگی گزارنے کو اپنا اولین فریضہ سمجھیں۔

دنیا میں تخلیقِ انسانی اور اس کے وجود سے جہاں اس روئے زمین کی چمک دمک اور رونق باقی ہے، وہیں دوسری طرف ہمیں باہمی اخوت و محبت اور وفاداری کے تقاضوں کو پورا کرنے کا بھی بہترین موقع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے کے اپنے اصول و آداب ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت اور تعمیر و ترقی کا زاویہ یا نظریہ ہمیں مذہب سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ مذہب کوئی بھی ہو، مذہب مذہب ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ مذہب اپنے پروکار کو کبھی بھی غیر متوازن یا بدکرداری کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ وہ انسانی سماج کے اندر پیوست باطل رسم و رواج کو نکال کر سماج کو پاکیزہ بنانے کا کام کرتا ہے۔معاشرے کو عدل وانصاف اور اتحاد و یکجہتی جیسی صفات کا مصداق بناتا ہے۔ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم انسان ہونے کی حیثیت سے مذہب کو مذہب ہی سمجھیں، اس کا احترام ملحوظ خاطر رہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مذہب کے درست استعمال اور اس کے صحیح عمل سے معاشرے کو امن و سکون اور روحانیت و تربیت کا مرکز و محور بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے اندر انسانی حقوق اور عوامی فلاح وبہبود کا جذبہ موجزن بڑی آسانی سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔

جو معاشرے مذہب و دھرم کو اپنی نجات کا ذریعہ گمان کرتے ہیں وہ آج بھی خوش و خرم ہیں۔ ان معاشروں کا الگ مقام و مرتبہ ہے۔ البتہ جب مذہب کو جذبات سے کھلواڑ کرنے یا جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو پھر اس کے نتائج ہمیشہ منفی ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے مذہب کے مثبت کردار پر عمل کرنا قوموں اور معاشروں کی سلامتی کے لیے لازمی ہے۔ آج عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ خواہ اس کا تعلق مذہب سے ہو یا سیاست سے، دونوں مذہب اور اس کی اقدار کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یاد رکھئے جب عوام پر مذہبی نشہ غالب آجاتا ہے تو پھر ان کے افکار و خیالات پوری طرح مفلوج ہوجاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کرنے کی استعداد کمزور پڑجاتی ہے۔ آج ہندوستان کی بھی صورت حال کچھ اسی طرح کی ہے، یہاں عوام کے مذہبی جذبات کو جس قدر برانگیختہ کیا گیا ہے وہ کسی کی نظروں سے اوچھل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام میں بیداری یا حکومت سے کسی بھی طرح کا سوال کرنے کی ہمت تک نہیں بچی ہے۔ پوری طرح مذہبی نشہ میں ملوث ہیں، ان کو موجودہ حکومت کا ہر کام درست نظر آتا ہے۔ اس لیے ہندوستان کے استحکام اور یہاں کے عوام کے حقوق کی بازیافت کے لیے عوام کے مذہبی نشہ کا خمار اتارنا ہوگا جو انہیں متعدد طریقوں سے پلایا جا چکا ہے۔

ماہرین و مفکرین کی بات مانیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کو کمزور کرنے اور اس کی عقل و خرد پر تسلط حاصل کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو ابھار نا کافی ہوتا ہے۔ یہ سچ بھی ہے کہ مذہب کے آگے کوئی بھی انسان پوری طرح لاچار ہوجاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق کو کھنگالنے کے بعد یہ حقیقت طشت ازبام ہوتی ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں یا مذہبی رہنماؤں نے مذہب کا استعمال محدود مفادات کے لیے کیا ہے تو وہ قومیں ظالم و جابر حکمرانوں کے ظلم و تعدی کا شکار ہوئی ہیں۔ ان کے وجود تک کو تہہ وبالا کردیا گیا ہے۔ آ ج کا المیہ یہ ہے کہ ہم مذہب کی باتیں بھی کرتے ہیں، مذہب پر لیکچرز بھی خوب دیتے ہیں، مذبی اجتماعت بھو خوب ہوتے ہیں، اسی کے ساتھ کتابیں بھی لکھ رہے ہیں مگر مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے سماج میں آ ئے دن مشاہدے کو ملتی رہتی ہے۔ اس لیے ہمیں ان چیزوں سے نہ صرف خود بچنا ہے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ رکھنا ہے جو ملت کو مذہب یا جذبات کے نام پر گمراہ کرے۔

آج ہمارا معاشرہ جہاں کھڑا ہے وہ افسوسناک ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا پیہم سلسلہ جاری ہے۔ ہر طرف ماتم ہی ماتم ہے۔ آہ و بکا اور چیخ و پکار نے ملک کے حالات کو غمگین بنادیا ہے۔ ایسے میں نفرت و تشدد اور تعصب و تعدی کے سوداگروں پر کچھ انسانیت نواز لوگوں نے ان کے منھ پر کالک پوتنے کا کام کیا ہے۔ ابھی آپ کو یاد ہوے گا کہ کرونا وباء جب اپنے عروج پر تھی تو کئی مقامات پر جب غیرِ مسلم کے اقربا نے اپنے مردے کی تجہیز و تکفین یا آخری رسومات ادا کرنے سے ہاتھ کھڑے کرلیے تو محلے کے مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائی کی تمام آخری رسومات ادا کیں۔

انسانیت کا تحفظ اور اس کے حقوق کی حفاظت سب سے اہم چیز ہے۔ آ ج جن لوگوں کو مذہب و دھرم کا ٹھیکیدار بنا دیا گیا ہے، اگر ان کو انسانیت کا درس دیا جاتا، باہمی اعتماد و ارتباط اور امداد کی فضیلت و اہمیت سے واقف کرایا جاتا تو شاید ملک میں آ ج یہ نوبت نہ آ تی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مذہب پر عمل کرنے کو کوئی منع نہیں کرتا ہے بلکہ یہ تو اچھی بات ہے کہ مذہب پر عمل کیا جائے لیکن قباحت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مذہب کے نام پر اقتدار و تسلط پر قبضہ حاصل کرتے ہیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔

حقیقی مذہبی ہونا اور بات ہے اور مذہب کے نام پر گندی سیاست کرنا عوام کے جذبات کو مشتعل کرنا دوسری بات ہے۔
آ ج جس قدر انسانی خدمت، معاشرے میں اتحاد و یکجہتی، تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے، وہیں ہمیں اس بات کو بھی عام کرنا ہوگا کہ ان سیاسی یا نیم سیاسی جماعتوں سے اور ان کے ایجنڈوں سے دور رہنا ہے جو مذہب کا استعمال باطل طریقے سے کرتے ہیں۔ عوام کو اپنی مصلحت پسندی میں پھنسا کر ان کی آ زادی کو سلب کر رہے ہیں۔

یاد رکھئے انسانیت کو زندہ رکھنے اور اس کی تمام بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنا ہر صاحب استطاعت شخص پر فرض ہے۔ لہٰذا مصیبت کے اس وقت میں مذہب و دھرم اور ذات بات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خاطر باہم مدد کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ مذہب کا غلط استعمال انسان کو کوتاہ نظر اور تنگ دست ، اور معاشرے میں ذلیل بناتا ہے۔ ایک اچھا سماج وہی ہوتا ہے جس کے اندر انسانی حقوق سلامت رہیں، لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ نہ ہو ۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ مل جُل کر ایک مودب اور مثالی سماج کی تشکیل کریں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .