حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اترپردیش اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں امیدواروں کی فہرست جاری کر رہی ہیں۔ ریاست میں 20 فیصد آبادی والا مسلم طبقہ ان انتخابات کو کس نظر یہ سے دیکھ رہا ہے؟ ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ پانچ برسوں میں کن مسائل کا سامنا رہا؟ اور کیا مسلمان اپنی قیادت کو مضبوط کر پائیں گے؟ ان تمام سوالوں کا جواب لکھنؤ کے متعدد مسلم دانشوروں سے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
مسلم دانشور
سماجی کارکن و کالم نگار مولانا ذکی نور عظیم ندوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں کہا کہ اترپردیش کا اسمبلی انتخاب مسلمانوں کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا غیروں کے لیے ہے۔ اس انتخاب میں جو مسائل مسلمانوں کے سامنے پیش آئیں گے وہی مسائل گزشتہ پانچ برسوں میں دیگر قوموں کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ لہٰذا تعلیم و ترقی، طبی خدمات، بے روزگاری مہنگائی کو ختم کرنے جیسے مسائل بڑے مسائل کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور انتخابات میں جو ووٹنگ کی امید کی جارہی ہے زیادہ تر سیکولر ووٹر انہیں مدعے پر ووٹ کریں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کے مسائل ریاست کے دیگر قوموں کے مسائل سے مختلف نہیں ہیں۔
سماجی کارکن و کالم نگار مولانا ذکی نور عظیم ندوی
اسد الدین اویسی کے ریاستی انتخابات میں داخل ہونے سے اس نظریہ کو تقویت ملی ہے کہ مسلمان اپنی قیادت تلاش کر رہا ہے؟ اسد الدین اویسی کے حوالے سے بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسیحا ہیں جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بی جے پی کی بی ٹیم ہیں! انہوں نے کہا کہ ہر انتخاب میں یہ خدشہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ نہ ہی وہ مسلمانوں کے مسیحا ہیں اور نہ ہی بی جے پی کی ٹیم ہیں۔ بلکہ وہ اپنی سیاسی زمین تلاش کر رہے ہیں اس کے لئے مسلمان، کمزور طبقہ کے مسائل وہ پُرزور آواز میں بلند کر رہے ہیں۔
لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر و سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر ایاز اصلاحی
لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں پروفیسر و سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر ایاز اصلاحی بتاتے ہیں کہ اترپردیش میں فرقہ پرستی کی جڑیں بابری مسجد معاملے سے لے کر اب تک کافی مضبوط ہوگئی ہیں لہٰذا ریاست میں جب بھی انتخابات کی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں تو فرقہ پرست طاقتیں بھی سامنے آتی ہیں اور اس پر ووٹنگ ہوتی ہے لہٰذا جب تک سیکولر جماعتیں متحد ہوکر ان کے خلاف محاذ آرا نہیں ہوں گی اس وقت تک ریاست میں فرقہ پرست طاقتیں ختم نہیں ہوں گی اور اس وقت تک ریاست کی ترقی خوشحالی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔
عیش باغ عید گاہ کے شاہی امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی
ظاہر کیا جاتا ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہوگی۔ خاص کر مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم سے Uttar Pradesh’s Muslim Vote-Bank دیگر فرقہ پرست جماعتوں کو فائدہ ملے گا یہ نظریہ بہت ہی بے بنیاد ہے۔
انہوں کہا کہ ریاست میں جس طرح دلت طبقہ کی رہنما مایاوتی، یادو کے رہنما اکھلیش یادو اسی طرح مسلمان بھی اپنا رہنما و قائد کسی کو بھی منتخب کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مایاوتی صرف دلت ووٹ سے حکومت سازی نہیں کرسکتیں۔ اکھلیش یادو صرف یادو ووٹ سے حکومت نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح مسلم رہنما بھی صرف مسلم ووٹ سے حکومت نہیں بنا سکتا۔ لہٰذا پارٹی سب کی ہونی چاہیے۔ لیکن قیادت مسلم کی ہو۔ اگر ایسا ہو تو اترپردیش کے مسلمانوں کی بڑی کامیابی ہوگی۔
انہوں نے کہا اس کے دو طریقے ہیں؛
پہلا طریقہ یہ ہے کہ اتر پردیش کی چھوٹی مسلم سیاسی جماعتوں کو بڑی سیاسی جماعتوں سے انتخاب سے قبل اتحاد یا انتخابات کے بعد اتحاد کے راستے ہموار کرنا چاہیے تاکہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مطالبات منوا سکیں۔
انتخابات کے بعد کی اتحاد کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جس پارٹی سے آپسی سمجھوتہ ہو اس پارٹی کے خلاف اسمبلی کی نشست پر امیدوار کے اعلان میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے امیدوار کو کتنے ووٹ ملیں گے۔ اگر مسلم سیاسی جماعت کے امیدوار کو کم ووٹ ملتے ہیں اس اسمبلی نشست پر بڑی سیاسی جماعت کی مدد کرنی چاہئے لیکن جہاں پر ان کے امیدوار جیت رہے ہیں وہاں پر زور طاقت کا مظاہرہ کریں۔ ایسا کرنے سے ووٹ تقسیم نہیں ہوگا۔