۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
انٹرویو

حوزہ/ مسلمان، سیکولر افراد اور جتنے بھی ملک کے ذمہ دار افراد ہیں اور ملک کا مستقبل اچھا چاہتے ہیں اور ملک میں امن و امان چاہتے ہیں، ان سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ فرقہ پرست پارٹی کے مقابل میں جو پارٹی زیادہ مضبوطی سے چیلنج کر رہی ہے اور جیتنے کی پوزیشن میں ہے تو اسے کامیاب کرنے کے لئے سب مل کر ووٹ دیں تا کہ ووٹ بٹنے نہ پائیں اور ملک کی سالمیت خطرے میں نہ پڑے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے متعلق حوزہ نیوز نے ہندوستان کے مشہور عالم دین اور عالمی شہرت یافتہ مولانا اختر عباس جون سے خصوصی گفتگو کی، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ: اترپردیش اسمبلی انتخابات قریب ہیں،تمام سیاسی جماعتیں امیدواروں کی فہرست جاری کر رہی ہیں، ریاست میں ۲۰ فیصد آبادی والا مسلم طبقہ ان انتخابات کو کس نظر یہ سے دیکھ رہا ہے؟

اختر عباس جون: اتر پردیش کے انتخابات پورے ہندوستان کے انتخابات میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، چوں کہ اتر پردیش کی آبادی بہت بڑی آبادی ہے، ایک بہت بڑا اسٹیٹ ہے اور اہم ہے اور دار الحکومت دہلی سے ملحق ہے، اگر اس کو ایک ملک کے عنوان سے دیکھا جائے تو شاید آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں یا چھٹاں سب سے بڑا ملک بنے گا، لہذا اتر پردیش کے انتخابات کی اہمیت کافی زیادہ ہوا کرتی ہے۔

اترپردیش میں کسانوں کے مسائل جوانوں کے لئے بے روزگاری کے مسائل، اقلیتوں کی مشکلات بہت بڑا چیلنج ہے!اتر پردیش میں آنے والا انتخابات بقیہ انتخابات سے الگ ہے، موجودہ بر سر اقتدار پارٹی کا اقتدار اگر یہاں خطرے میں پڑتا ہے تو اس کا پورا اثر اصل دہلی انتخابات اور دہلی کے اقتدار پر پڑے گا، لہذا موجودہ بی جے پی پارٹی نے اپنا پورا زور اتر پردیش کے انتخابات پر لگا دیا ہے، اس کے مقابل میں دوسری پارٹیوں کی جانب بھی بہت زیادہ کوششیں جاری ہیں چوں کہ بی جے پی کے دور حکومت میں ملک بہت ساری مشکلات پیدا ہوئیں جیسے کسانوں کے مسائل جوانوں کے لئے، بے روزگاری کے مسائل، اقلیتوں کو بھی بہت ساری مشکلات سامنا کرنا پڑا جو کہ ملک کے لئے اچھا نہیں تھا، لہذا اس اعتبار سے اس سال یوپی کے الکشن پر شدت اور زور بہت زیادہ ہے، اس وقت انتخابات کی تیاریاں پورے زور و شور سے چل رہی ہیں، اس سال جو انتخابات کے نتائج ۱۰ مارچ کو آئیں گے اس سے ممکن ہے کہ ملک کا مستقبل کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے کہ ملک کس طرف جانے والا ہے۔

حوزہ: ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ پانچ برسوں میں کن مسائل کا سامنا رہا ہے؟

اختر عباس جون: جیسا کہ عرض کیا کہ یوپی میں موجودہ حکومت جو بر سر اقتدار ہے اس حکومت نے کئی مقدمے اور کیس اپنے اوپر سے ہٹا لئے ہیں، جبکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک میں عوام کی آواز سنی جاتی ہے، لیکن اوتر پردیش کی حکومت میں عوام اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر اکٹیو افراد اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ حکومت کا سیکولر پہلو کافی کمزور ہوتا جا رہاہے، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کا انداز دکھائی دے رہاہے، حتی کہ خود بی جے پی میں بھی اختلاف دیکھنے کو مل رہا ہے، خود اس پارٹی کء تقریبا ۲۰۰ ایم ایل اے اپنی پارٹی کے خلاف آواز بلند کی، اور ساتھ مرکزی حکومت میں بھی کافی اختلاف رونما ہو رہے ہیں، یہ تمام مسائل ایک جانب ، لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں نہ صرف اترپردیش بلکہ مرکزی حکومت میں بھی صرف مذہب کی سیاست چل رہی ہے، مذہب کے نام پر ووٹ مانگے جا رہے ہیں، پچھلے انتخابات میں بھی پوری طرح سے مذہب کے نام پر ، مسجد و مندر کے نام پر سیاست کی گئی اور ووٹ مانگے گئے ، اسکے نتیجے میں جو ہندوستان کہ حسن تھا اور جو طریقہ تھا کہ لوگ آپس میں مل جل کر زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کو انسانیت اور محبت و پیار کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، پچھلے پانچ سالوں میں اور مرکز میں پچھلے آٹھ سالوں میں مکمل طور پر تبدیل وہ نگاہیں بدل گئی ہیں۔

مسلمانوں کے ووٹ بٹ جانے سے فرقہ پرست پارٹیوں کو فائدہ پہنچتا ہے

پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں ترقی کے نام پر کوئی کام نہیں ہوا، کوئی بھی ترقی اور پیشرفت کا پروجکٹ آگے نہیں بڑھا ہے، بہت سارے سڑک وغیرہ کے کام مکمل ہوئے ہیں جنہیں پچھلے حکومت یعنی سماجوادی ہارٹی نے شروع کیا تھا، اسی کام کو ہائی لائٹ کر کے دکھایا جا رہاہے جو اتنے بڑے اسٹیٹ کے اعتبار سے بہت محدود کام ہے۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو دوسری قوموں کے درمیان بہت دوریا بڑھ گئی ہیں، ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو ہمیشہ دہشت گردی کے ارادے میں رہتا ہے اور بہت ساری وارداتیں انجام پائی ہیں، اس کام سے نفرتوں کو فروغ ملا ہے جو کہ ملک کے مستقبل کے لئے بہت مضر ثابت ہوں گی، ہندوستان خاص کر اترپردیش بہت امن و امان والا علاقہ نہیں سمجھا جا رہا ہے ، اس سے بہت ساری اقتصادی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے ، ملک کا اقتصاد بہت ہی گر گیا ہے، بے روزگاری کی انتہا ہو گئی، گذشتہ احتجاج جو اسٹوڈنٹس کی جانب سے ہوئے تھے 35 ہزار آسامیوں کے لئے تقریبا ایک کروڑ چالیس لاکھ سے بھی زیادہ لوگوں کے درخواستیں دی ہوئی تھیں، یعنی ایک معمولی سے نوکری جو کہ ۱۸ یا انیس ہزار ماہانہ تھی اس کے لئے اسٹوڈنٹس کی اتنی بڑی تعداد نے درخواستیں دی تھیں، اگر عدد کو دیکھیں تو ۴۰۰ لوگوں میں سے صرف ایک شخص کو یہ نوکری ملنی تھی، یعنی ۹۹ فیصد لوگ بے روزگار رہیں گے، اس سے بے روزگاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہیں، یہی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ ہے ، کسانوں نے بھی ۱۳ مہینوں تک مسلسل گرمی سردی برسات میں کو برداشت کی اور روڈ پر رہےجس کے نتیجے میں ۷۰۰ کسانوں کی جان چلی گئی ، اس کے بعد ان کی بات سنی گئی، بلکہ یوں کہوں کہ الکشن کے ڈر کی وجہ سے کسان بل کو واپس لیا گیا۔ یہ یوپی کی صورت حال ہے جو پچھلے پانچ سالوں میں دیکھنے کو ملی ہیں۔

حوزہ: ریاست میں جب بھی انتخابات کی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں تو فرقہ پرست طاقتیں بھی سامنے آتی ہیں اور اس پر ووٹنگ ہوتی ہے اسکے تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

اختر عباس جون: جہاں تک فرقہ پرستی کی بات ہے، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ کافی زمانے سے ہندوستان میں چل رہا ہے، یہ مسئلہ ۱۹۹۲ یعنی بابری مسجد کے شہید ہونے سے بھی پہلے سے جاری ہے، قوموں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش چل رہی ہے ، پچھلے کچھ سالوں سے اس میں شدت آگئی ہے، یہ مسئلہ اس وقت اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے، یہ ہر عروج کو زوال بھی ہوتاہے، لہذا اس الکشن میں کافی لوگ اس بات کی جانب متوجہ ہیں، پڑھے لکھے افراد اور نوجوان جانتے ہیں کہ الکشن کبھی بھی مذہب کے نام پر نہیں ہونا چاہئے اور اس سے ملک بہت پیچھے جا رہا ہے، پورے ملک کو نقصان ہو رہاہے اور جوانوں کو مشکل ہو رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور پورے ملک کی اقتصادی حالت بہت زیادہ خراب چل رہی ہے، اور آئندہ اور بھی مشکلات آنے والی ہیں، پڑھے لکھے افراد اس وقت رکشہ چلانے پر مجبور ہیں، دن کا ۴۰۰ روپیہ کماتے ہیں اور ۲۰۰ روپیہ رکشے والے کو دے دیتے ہیں اور ۲۰۰ روپیہ میں اپنا گزارا کرتے ہیں جو کہ ایک بہت معمولی رقم ہے اور سبزی پر بھی انسان گزارا نہیں کر سکتا۔یہ ملک کے لئے انتہائی افسوسناک صورت حال ہے۔

فرقہ پرستی اور نفرت کے نام پر ووٹ نہیں دیا جا سکتا، مذہبی اختلاف کے نام پر ووٹ نہیں دیا جائے گا بلکہ ملک ترقی اور پیشرفت کے نام پر ووٹ ہونا چاہئے!ابھی کچھ دن پہلے ایک ویڈیو دیکھی کہ جس میں ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ اگر میں پرائیویٹ نوکری کروں تو ۵ ہزار روپیہ پر نوکری کرنا پڑے گا، لہذا میں رکشہ چلانے پر مجبور ہوں، کم از کم اپنی آزادی سے رکشہ چلا سکتا ہوں، یہ صرف ایک انسان کی حالت نہیں بلکہ بہت زیادہ انسانوں کی یہی حالت ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اس جانب متوجہ ہو رہے ہیں، ایک بڑی تعداد اس کی جانب متوجہ ہوئی ہے، اور علی الاعلان اس بات کو کہہ رہے ہیں -البتہ میڈیا اس بات کو نہیں دکھاتا- لیکن سوشل میڈیا پر یہ بات تیزی سے پھیل رہی ہے کہ فرقہ پرستی اور نفرت کے نام پر ووٹ نہیں دیا جا سکتا، مذہبی اختلاف کے نام پر ووٹ نہیں دیا جائے گا بلکہ ملک ترقی اور پیشرفت کے نام پر ووٹ ہونا چاہئے، اس لئے اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے اور خود بی جے پی کے درمیان اختلاف ہےاور تمام افراد اس بات کی جانب متوجہ ہیں کہ ہمیں دھوکا دیا جا رہا ہے اور ہمارا استحصال ہو رہا ہے، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت سے ہندوئزم کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے، جیس طرح داعش جیسے دہشت گرد سے اسلام کو نقصانے کی کوشش کی گئی تھی اسی طرح مذہبی دہشت گردی کے نام پر ہندوستان میں خود ہندو مذہب کو بھی بہت نقصان پہنچایا گیا ، لیکن اب آہستہ آہستہ حالات بہتر ہو رہے ہیں ۔

مسلمانوں کے ووٹ بٹ جانے سے فرقہ پرست پارٹیوں کو فائدہ پہنچتا ہے

حکومت بہت سارت ہتھکنڈت اور فریب ہوتے ہیں جو کہ موجود الکشن میں بھی حالات کو اپنے فائدے میں بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا، لیکن اگر لوگ بہت بڑی تعداد میں عوام میں نیداری پیدا ہوئی تو فرقہ پرستی اور نفرت کے نام پر ووٹ نہیں مل پائے گا، حد اقل اس مقدار میں تو ووٹ نہیں مل پائے گا جس مقدار میں پہلے ملا کرتا تھا۔

حوزہ: ریاست میں فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کی ضرورت ہے ؟

اختر عباس جون: یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لئے کیا کوششیں کی جائیں؟ پہلی تو یہ ہے کہ لوگوں جو دھوکہ دیا جا رہا ہے اس کی طرف آگاہ کیا جائے، نفرتیں فطری نہیں ہیں، وہ کسی کوشش کی بنیاد پر آتی ہیں، لیکن محبت ایک فطری چیز ہے، ایک انسان کا دوسرے انسان سے محبت کرنا، آپس میں ہمدردی اور دوسروں کے کام آنا، یہ انسانیت کا تقاضا ہے اور یہ ایک فطری چیز ہے، لہذا اگر انسان کو اس کی فطرت کی طرف پٹایا جائے تو وہ محبت دوبارہ واپس آ سکتی ہے، فطرت کی جانب پلٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جن کے ذریعہ انسان کو دھوکا دیا گیا ہے اور جسکی جانب اسے مجبور کیا گیا ہے اس کی طرف توجہ دلائیں، اسکے لئے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ جب نفرتیں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو لوگ خود بخود متوجہ ہو جاتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کتنا برا ہو رہا ہے، اور جو لوگ خود نہیں سمجھ پاتے تو جو بیدار افراد ہیں اور اس بات کو سمجھتے ہیں ان کی کوششیں ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ فرقہ پرستی کے نتائج کیا ہوتے ہیں، لہذا اگر ملک میں فرقہ پرستی کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے تو یہ فرقہ پرستی زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔

انسانوں کی انسانوں سے نفرت اور بیزاری یہ فطری نہیں ہے اور انسان اسے زیادہ دیر تک اسے برداشت نہیں کرتا اور قبول نہیں کرتا !مسلمانوں کے درمیان بھی فرقہ پرستی کی گئی اور اس کی بہت پرانی تاریخ ہے، لیکن جو افراد آگاہ ہیں وہ اپنی کوششیں کر رہے ہیں اور ان کوششوں کی وجہ سے الحمد للہ کافی بہتری آئی ہے ، ورنہ امریکہ جیسا ملک نہ جانے کب سے چاہ رہا ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان اختلاف ایجاد کیا جائے اور خانہ جنگی کی صورت حال بنا دی جائے، جیسے ایران اور سعودی کے درمیان یا امارات کے درمیان اختلاف ہو جائے، لیکن رہبر معظم انقلاب کی بصیرت اور ذمہ افراد کی کوششیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر یہ نہیں ہو سکا خدا کرے کہ ایسا کبھی نہ ہو، اس طرح اترپردیش میں بھی بہت سارے حکومت طلب افراد کی کوششیں ہیں کسی طرح فرقہ واریت ہو جائے، جیسا ہریدوار میں "دھرم سانسد" کے نام پر یہ کام کیا گیا، لیکن یہ سبب بنا کہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہو گئے، چوں کہ جب نفرت میں شدت پیدا ہو جاتی ہے تو لوگ اس کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں اور آگاہی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس آگاہی کے نتیجے میں فرقہ پرستی کم ہوگی کیوں کہ نفرت فطری نہیں ہے، انسانوں کی انسانوں سے نفرت اور بیزاری یہ فطری نہیں ہے اور انسان اسے زیادہ دیر تک اسے برداشت نہیں کرتا اور قبول نہیں کرتا۔

حوزہ: انتخابات میں کئی مذہبی رہنماہوں کو یہ اپیل کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ مسلم قوم فلاں پارٹی کو ووٹ دے دیں یا فلاں شخص کو ووٹ دیں ؟ تو اس بات پر مسلمان کو کتنا توجہ دینا چاہیے یا نہیں دیا چاہئے ؟ یا یہاں پر کنڈیڈیت کو معیار بنانا چاہیے یا پارٹی کو دیکھ کر ووٹ دینا چاہیے؟

اختر عباس جون: موجودہ حکومت کی اپنی کامیابی کے لئے سب بڑی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مقابل کے سارے ووٹوں کو تقسیم کر دیا جائے، اور ہمیشہ ووٹ کو بانٹ کر ہی سارے انتخابات جیتے گئے ہیں، ۳۵ فیصد، ۳۸ فیصد، ۴۰ فیصد اور بعض جگہ اس بھی کم ووٹ پر انتخابات جیتے ہیں، ایسا بھی ہوا ہے کہ ۳۰ فیصد ووٹ پر حکومت بنائی گئی ہے جبکہ مد مقابل ۷۰ فیصد ووٹ کے ساتھ بھی حکومت نہیں بن سکی، اس کی وجہ یہی ہے کہ ۷۰ فیصد ووٹ بٹے ہوئے تھے، اس انتخابات اور پچھلے انتخابات میں بھی بہت زیادہ کوشش ہوئی ہے کہ ووٹوں کو بانٹ دیا جائے، ہندوستان اورمیں خاص کر اترپردیش میں، مغربی اور مشرقی علاقوں میں مسلمانوں کے ووٹ اصلی نقش ادا کرتے ہیں جو کہ نتیجہ پر بہت بڑا اثرڈالتے ہیں، بلکہ بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ سے ہی نتیجہ مل جاتا ہے، لہذا ایسی جگہوں پر اگر مسلمانوں کے ووٹ بٹ جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ فرقہ پرست کو فائدہ پہنچتا ہے ، بعض پارٹیوں کے بارے میں یہ شک ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہی ہوں، اگر موجود حالت برقرار رہی تو یہ شکوک و شبہات اور زیادہ ہوں گے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کے ووٹ بٹ جانے سے فرقہ پرست پارٹیوں کو فائدہ پہنچتا ہے

مسلمان، سیکولر افراد اور جتنے بھی ملک کے ذمہ دار افراد ہیں اور ملک کا مستقبل اچھا چاہتے ہیں اور ملک میں امن و امان چاہتے ہیں، ان سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ فرقہ پرست پارٹی کے مقابل میں جو پارٹی زیادہ مضبوطی سے چیلنج کر رہی ہے اور جیتنے کی پوزیشن میں ہے تو اسے کامیاب کرنے کے لئے سب مل کر ووٹ دیں تا کہ ووٹ بٹنے نہ پائیں اور ملک کی سالمیت خطرے میں نہ پڑے۔ ان شاء اللہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .