۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
تصاویر/ پیام نوروزی رهبر انقلاب به مناسبت آغاز سال ۱۴۰۱

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1401 کے آغاز پر قوم سے خطاب کیا۔ ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اس پالیسی اسپیچ میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتصادی شعبے کے تعلق سے انتہائی کلیدی نکات بیان کئے ساتھ ہی علاقائی اور عالمی حالات کا جائزہ لیا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1401 کے آغاز پر قوم سے خطاب کیا۔ ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اس پالیسی اسپیچ میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتصادی شعبے کے تعلق سے انتہائی کلیدی نکات بیان کئے ساتھ ہی علاقائی اور عالمی حالات کا جائزہ لیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.

آپ تمام ناظرین اور ان تمام لوگوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جو میری ان باتوں کو سنیں گے۔ میں (ہجری شمسی) سال کے آغاز اور صدی کی شروعات کے اس دن، اپنی باتوں کو مزین کر رہا ہوں حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام مہدی ارواحنا فداہ کے نام اور ان کی یاد سے کہ جن کا وجود، دلوں کی بہار اور زندگي کی طراوت ہیں۔
السلام علیک ایھا َالْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ، والْغَوْثُ وَالرَّحْمَۃُ الْواسِعَۃُ وَعْداً غَيْرَ مَكْذُوبٍ، السَّلامُ عَلَيكَ حِينَ تَقُومُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَقْعُدُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَقْرَاُ وَتُبَيِّنُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تُصَلِّي وَتَقْنُتُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تَرْكَعُ وَتَسْجُدُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِينَ تُھَلِّلُ وَتُكَبِّرُ، السَّلامُ عَلَيْكَ حِين تَحْمَدُ وَتَسْتَغْفِرُ.(1)
یہ تیسرا نوروز ہے کہ ہم یعنی یہ حقیر، حضرت علی ابن موسی الرضا سلام اللہ علیہ، صلوات اللہ علیہ کے مبارک و مطہر حرم میں شرفیابی اور قرب و جوار اور دور سے آنے والے ان کے زائرین کے درمیان حاضری کے فیض سے محروم ہے۔ لہذا ہم یہیں دور سے انھیں سلام عرض کرتے ہیں اور درود بھیجتے ہیں:
"اللهمّ صلّ علی ولیّک علىّ ‌بن موسی‌ الرّضا عدد ما فی علمک صلاةً دائمةً بدوام ملکک و سلطانک. اللهمّ سلّم علی ولیّک علىّ‌ بن‌ موسى‌ الرّضا علیه السّلام عدد ما فی علمک سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک."
سال کی ابتدا کے ایرانی نوروز اور اس بہاری عید کے سلسلے میں کچھ نکات پائے جاتے ہیں جنھیں پہلے بھی کبھی ہم نے عرض کیا ہے۔ ایک نکتہ جسے میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ اس قومی عید کا ذکر خدا، دعا، مناجات اور معنویت سے امتزاج ہے۔ مختلف اقوام میں سال کے شروع میں منائی جانے والی عیدوں میں یہ چیز شاید کم نظیر ہو، البتہ مجھے زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن مجھے بعید لگتا ہے، یا کم نظیر ہے یا بے نظیر ہے کہ عوام قومی عید کو دعا، ذکر خدا، مناجات، روحانیت اور پروردگار عالم سے اپنی محبت کے اظہار سے جوڑ دیں۔
کل رات نیا سال شروع ہونے کے وقت، ہر کسی نے، مختلف طقبوں کے لوگوں نے، بوڑھوں نے، بڑی شخصیات نے، سائنسدانوں نے، مختلف سائنسی شعبوں میں کام کرنے والوں نے، میزائل کے میدان، نینو کے میدان اور حیاتیات وغیرہ کے میدان میں کام کرنے والوں سے لے کر تعمیری جہاد کے کیمپوں میں پہنچنے والے نوجوانوں تک، جو دور افتادہ دیہاتوں میں عید مناتے ہیں اور عوام کی خدمت کے لیے اپنے گھر والوں سے دور ہوتے ہیں، سبھی نے سال شروع ہونے کے لمحے کو "یا محوّل الحول و الاحوال" (کی دعا) سے شروع کیا، خدا سے باتیں کر کے شروع کیا، خدا سے دعا مانگ کر شروع کیا اور اپنے دل کو خدا کی یاد سے پاکیزہ بنا کر شروع کیا۔ یہ ایک بات ہے۔ نوروز کے سلسلے میں ایک دوسرا نکتہ ایرانیوں کا خاص ذوق اور سلیقہ ہے جس میں انسان فکر کی گہرائي کو محسوس کرتا ہے کہ انھوں نے بہار کو اپنے سال کا آغاز قرار دیا ہے، بہار امید کا مظہر ہے، امید کا پیغام لانے والی ہے، بہار انسان سے کہتی ہے کہ یقینی طور پر خزاں اور پتجھڑ کا خاتمہ ہونے والا ہے اور یقینا شادابی، طراوت، جدت اور نیاپن آنے والا ہے۔ یہ بہار کی خصوصیت ہے۔ بہار، لوگوں کو ایک پیغام دیتی ہے، طراوت کا پیغام، بالیدگي کا پیغام۔ البتہ یہ امید اس سال، پندرہ شعبان کے ایام کی ہمراہی کی وجہ سے دوبالا تھی کہ یہ دن، تاریخ کی بہت بڑی امید اور انسانیت کی بہت بڑی امید کی پیدائش کا دن ہے اور امید، تمام کاموں اور ترقی و پیشرفت کا سرچشمہ ہے۔
یہیں پر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ عوام سے بات کرتے ہیں، انھیں پیغام دیتے ہیں، لکھتے ہیں، کوشش کرتے ہیں، وہ لوگ جہاں تک ممکن ہو، عوام کے اندر امید پیدا کریں۔ امید، حرکت کا اہم عنصر ہے، پیشرفت کا اہم عنصر ہے اور بحمد اللہ خداوند متعال نے ایرانی قوم کے لیے امید کے اسباب بھی فراہم کیے ہیں، بحمد اللہ ہماری قوم اور ہمارے ملک میں امید کے اسباب کم نہیں ہیں۔ دشمنوں کو ایرانی قوم کے پرامید ہونے پر تلملانے اور طیش میں آنے دیجیے اور ان شاء اللہ ایرانی قوم کے دل میں روز بروز امید بڑھتی ہی جائے گي۔ آج جو باتیں میں آپ کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں، ان میں پہلے مرحلے میں معاشی مسائل ہیں جن کے بارے میں، میں نے نئے سال کے پیغام میں اور نئے سال کے نعرے میں کل رات کچھ باتیں عرض کی تھیں اور کسی حد تک تشریح کی تھی۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ باتیں مزید ہیں اور اگر وقت ملا اور گنجائش رہی تو ان شاء اللہ عرض کروں گا۔
سال کے اس پہلے ہی دن معاشی مسائل کی بحث چھیڑنے کی پہلی وجہ، معاشی مسئلے کی اہمیت ہے۔ یعنی اگر واقعی ملک میں سماجی انصاف پر استوار معیشت وجود میں آ جائے تو ترقی و پیشرفت کے تمام اسباب فعال ہو جائيں گے اور ملک حقیقی پیشرفت حاصل کرے گا، معیشت کا اس طرح کا کلیدی رول ہے۔ یہ پہلی بات۔ دوسرے یہ کہ پچھلے عشرے کے ان دس برسوں میں ہمارے سامنے معاشی چیلنجز کا انبار تھا، ان سے کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ معیشت کے بارے میں صحیح طرح سے سوچنا چاہیے، صحیح عمل کرنا چاہیے اور صحیح طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے تاکہ ان شاء اللہ اس سلسلے میں قوم کے لیے آسائش کے اسباب فراہم ہو سکیں۔ اقتصادی اور معاشی بحث کو ہم اسی وجہ سے خصوصیت سے پیش کرتے ہیں۔ معیشت میں سب سے اہم مسئلہ قومی پیداوار کا ہے جس کے بارے میں ہم نے اختصار سے عرض کیا کہ ہم نے پچھلے تین چار برسوں میں، سال کے نعرے میں پیداوار کے مسئلے کو بار بار دوہرایا ہے، البتہ حکومتوں اور عہدیداروں نے اپنی سعی بھر، اپنی ہمت بھر عالمی حالات کے پیش نظر کچھ کام کیے ہیں، وہ کچھ کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں، انھوں نے کوششیں کی ہیں لیکن آج بہرحال ہمارا اصل مسئلہ، میری نظر میں ملک کے سرکاری عہدیداروں اور کسی نہ کسی طرح ان مسائل میں، ملک کا نظام چلانے میں دخیل افراد کا اصل مسئلہ، معیشت ہے۔
کچھ نئی روش اور سرگرمیاں بھی دکھائي دیتی ہیں جو انسان کو پرامید بناتی ہیں۔ یعنی اگر ان شاء اللہ اس طرح کی روش، عوامی طرز عمل اور عوامی تعاون مناسب طریقے سے جاری رہے تو یہ امید افزا ہے اور انسان میں مزید امید کی علامتیں پیدا کر سکتا ہے۔
ایک بات میں یہیں پر عرض کر دوں کہ معیشت کے سلسلے میں جو کچھ میں عرض کرتا ہوں، جو مطالبے کیے جاتے ہیں وہ اصل میں ملک کے حکام سے کیے جاتے ہیں۔ اصل میں حکومت سے، کسی حد تک مقننہ سے، حتی عدلیہ سے اور ان سے وابستہ بعض اداروں سے۔ اصل میں خطاب ان سے ہے۔ اب جو مسائل ان سے متعلق ہیں انھیں ہم عمومی سطح پر اور ملک کے عوام کے لیے کی جانے والی تقریر میں کیوں اٹھا رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہتر ہے کہ عوام کو معیشت کے مسائل اور معاشی پالیسیوں کی عمومی فضا کا علم ہو، مجھ حقیر کے مطالبات کو بھی جانیں، ان عہدیداروں کی حمایت اور پشت پناہی کریں جو ان مسائل پر کام کرتے ہیں، اقدامات کرتے ہیں، البتہ خود عوام پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور آج جب میں نالج بیسڈ معیشت کے بارے میں اپنی باتیں عرض کروں گا تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گي کہ کچھ کام ہیں جنھیں عوام کو بالخصوص نوجوانوں کو انجام دینا ہے۔ یہ عمومی گفتگو شاید اس بات کی بھی موجب بنے کہ مختلف ادارے بھی ان مسائل کی زیادہ اور بہتر طریقے سے حمایت کریں۔
تو میری آج کی بات یہ ہے کہ ملک کی معشیت کی پیشرفت اور ملک کے معاشی امور کی اصلاح کے لیے ہمیں ٹھوس طریقے سے نالج بیسڈ معیشت کی سمت میں بڑھنا چاہیے۔ ہماری آج کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے۔ "نالج بیسڈ معیشت" کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیداوار کے تمام میدانوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی بہت زیادہ اور بھرپور کردار ادا کریں۔ میں جو پیداوار کے تمام میدانوں کی بات کر رہا ہوں تو اس کا مطلب ہے، اس پروڈکشن کی نوعیت کا انتخاب بھی شامل ہے۔ کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ انسان، پیداوار کے تمام کام خود انجام دے۔ اس پیداوار کا انتخاب بھی، سائنسی سوچ اور نظریے کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ یہ نالج بیسڈ معیشت کا مطلب ہے جسے معیشت کے تمام میدانوں میں نافذ ہونا چاہیے۔ اگر ہم نے یہ پالیسی اختیار کی اور سائنس کو، ملک کی معیشت کی اساس قرار دیا اور نالج بیسڈ کاروباری اداروں کو فروغ دیا - جس کے بارے میں، میں بعد میں عرض کروں گا - تو ملک کو اور ملکی معیشت کو بہت زیادہ فائدے حاصل ہوں گے: اس سے اخراجات کم ہوں گے۔ یعنی نالج بیسڈ معیشت پیداواری لاگت میں کمی کا سبب بنتی ہے۔ پروڈکٹس کی مقدار میں اضافہ ہوگا، کہ جو آج ہماری مشکلات میں سے ایک ہے۔ پروڈکٹ کی کوالٹی بڑھ جائے گي، بہتر ہو جائے گي اور اسے عالمی منڈیوں میں کمپیٹیشن کے لائق بنا دے گي۔ ہم ان پروڈکٹس کو کمپیٹیشن والے پروڈکٹس کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی ایسا ہی ہے۔ یعنی چاہے ہم درآمدات پر بہت زیادہ کسٹم ڈیوٹی نہ لگائيں اور بہت زیادہ درآمدات ہونے لگيں تب بھی جب ملکی پروڈکٹ کی کوالٹی بہتر ہوگي، قیمت کم ہوگي تو لوگ فطری طور پر اسی کو پسند کریں گے؛ نالج بیسڈ پیداوار کی اس طرح کی خصوصیات ہیں۔
اگر میں اس سلسلے میں مثال دینا چاہوں تو زراعت کی مثال دوں گا اور افسوس کی بات ہے کہ زراعت کا شعبہ، صنعت و سروسز جیسے شعبوں کی نسبت نالج بیسڈ ٹیکنالوجی سے تھوڑا دور ہے۔ اگر ہم زراعت میں، نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد بڑھا دیں اور زراعت کے مسئلے میں سائنس کو استعمال کریں تو ہم - بیج کی اصلاح یا سیڈ موڈیفکیشن کے مسئلے میں، جو زرعی محصولات کی پیداوار میں بہت اہم ہے، نئي روش سے آبپاشی کے مسئلے میں، پیداوار کے نئے طریقوں کے بارے میں، پانی اور مٹی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے مسئلے میں - پانی اور مٹی دو بہت ہی گرانقدر سرمائے ہیں، جن کی طرف ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا(2) - زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، ان سے اپنا استفادہ بڑھا سکتے ہیں اور انھیں بہتر بنا سکتے ہیں۔ جب ہم زراعت میں یہ پیشرفت حاصل کر لیں گے اور یہ سنجیدہ تبدیلی لے آئيں گے تو یہ اس بات کا موجب ہوگي کہ پہلے تو ملک کی غذائي سلامتی یقینی ہو جائے، یعنی ملک غذائي مسائل کے لحاظ سے کبھی بھی مشکل میں مبتلا نہیں ہوگا، کسی طرح کی کوئي تشویش نہیں ہوگي۔ دوسرے یہ کہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارے کسانوں کی آمدنی بڑھے اور وہ زراعت کی طرف سے پرامید رہیں اور اپنا کام جاری رکھیں، کہ یہ پروڈکٹ بہت زیادہ گرانقدر ہے۔ اسی طرح پانی کی کمی کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں جو بات مشہور ہے اور عام طور پر کہی جاتی ہے - البتہ اس سلسلے میں میری اپنی رائے الگ ہے - یہ ہے کہ ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے؛ اگر ہماری زراعت نالج بیسڈ ہو گئي تو پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ زراعت کے بات میں نے مثال کے طور پر عرض کی ہے۔
دوسرے تمام شعبوں میں بھی - چاہے وہ پیداواری شعبے ہوں یا سروسز کے شعبے ہوں - یہی برکتیں موجود ہیں۔ یعنی پروڈکٹ کی مقدار بڑھے گي، کوالٹی بہتر ہوگي، پروڈکٹ پر آنے والی لاگت کم ہوگی، در حقیقت پیداوار کو نالج بیسڈ بنانا، معاشی سرگرمیوں سے استفادے کو بہتر بناتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، یہ ایک حساس اور بنیادی نکتہ ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گيا، ملک کی ایک مشکل، استفادے میں کمی ہے۔ یعنی کسی چیز کے استعمال پر جتنا خرچ کرتے ہیں، اس خرچ کے تناسب سے استفادہ نہیں کر پاتے۔ مختلف شعبوں میں ایسا ہے۔ ملک میں صحیح استفادے کا تناسب کم ہے۔ میں نے اپنے عزیز عوام سے، انرجی کے استعمال میں زیادہ روی کے بارے میں کچھ سال پہلے(3)، مشہد میں سال کے پہلے دن کی اسی تقریر میں عرض کیا تھا کہ جتنی بجلی ہم استعمال کرتے ہیں، اس استعمال کے تناسب سے ثمرہ حاصل نہیں کر پاتے؛ دنیا میں اس کی اوسط شرح ہم سے زیادہ ہے، ہم صحیح استفادے کے میدان میں پیچھے ہیں۔ دوسرے موضوعات میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگر ہم نالج بیسڈ معیشت کی سمت قدم بڑھاتے ہیں تو یہ اہم معاشی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
پیداوار کو نالج بیسڈ بنانے کے سلسلے میں کچھ فنی اور تکنیکی پہلو ہیں، جن کے بارے میں مجھے مہارت نہیں ہے، البتہ کچھ معلومات ہیں لیکن انھیں یہاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں ملکی حکام اور اس کام کے ماہرین کو متعلقہ لوگوں کے درمیان پیش کرنا چاہیے، ان کے بارے میں پوچھتے رہنا چاہیے تاکہ ان شاء اللہ یہ مسئلہ پوری طرح سے حل ہو جائے۔ میں اختصار کے ساتھ عرض کروں کہ معیشت میں منصفانہ پیشرفت کے حصول اور ملک میں غریبی کے مسئلے کے حل کے لیے- اگر ہم ملک میں غربت اور مالی کمزوری کی مشکل کو حل کرنا چاہیں تو - یہ کام صرف پیداوار کی تقویت کی راہ سے ہی ممکن ہے۔ اگر ہم نے پروڈکشن کو مضبوط بنا دیا اور اس کی مضبوطی بھی اسی نالج بیسڈ طریقے سے ہی ہوگي، تو ان شاء اللہ یہ بڑا ہدف حاصل ہو جائے گا۔
اس سلسلے میں دو اہم باتیں عرض کروں گا جو نالج بیسڈ کمپنیوں کے اس مسئلے سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں نالج بیسڈ کمپنیاں ہیں لیکن ان میں اضافہ ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم یہ اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے یہاں سات ہزار سے کچھ کم نالج بیسڈ کمپنیاں ہیں۔ تقریبا چھے ہزار چھے سو یا چھے ہزار سات سو نالج بیسڈ کمپنیاں ملک میں ہیں جن میں سے قریب ساڑھے چار ہزار کمپنیاں پروڈکشن والی ہیں؛ جبکہ باقی دیگر سروسز اور اسی طرح کے دوسرے کاموں کی ہیں۔ یہ کمپنیاں براہ راست تقریبا تین لاکھ روزگار پیدا کرتی ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے۔ البتہ جن لوگوں سے میں نے پوچھا اور انھوں نے جواب دیا، انھوں نے بتایا کہ تین لاکھ سے زیادہ؛ ان کا اندازہ ہے کہ مثال کے طور پر تین لاکھ بیس ہزار براہ راست روزگار، گزرے ہوئے سال میں پیدا ہوئے ہیں، بالواسطہ روزگار اس سے بہت زیادہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ سنہ 1401 (ہجری شمسی) میں اس تعداد کو کتنا بڑھایا جا سکتا ہے اور ان کمپنیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ کیا جا سکتا ہے؟ مجھ سے کہا گيا کہ زیادہ سے زیادہ تیس فیصد۔ میں اس پر مطمئن نہیں ہوں؛ میرا ماننا ہے کہ تیس فیصد، وہ تعداد نہیں ہے جو ہمارے ملک کے لیے مطلوبہ ہو، ملک کی ضرورت کے مطابق ہو اور ملک کی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ عہدیداران سے میری توقع یہ ہے کہ اس میں سو فیصد ا‌ضافہ ہو، یعنی کمپنیوں کی تعداد دگنی ہو جائے۔ اس طرح تین لاکھ براہ راست روزگار، سنہ 1401 میں چھے لاکھ براہ راست روزگار میں تبدیل ہو جائيں گے۔
البتہ یہ کام اس بات کا سبب نہ بنے کہ ہم ایک کمپنی تیار کریں اور اس کا نام رکھ دیں نالج بیسڈ جبکہ وہ نالج بیسڈ نہ ہو! نہیں، صحیح معنی میں نالج بیسڈ کمپنیاں بنائي جائيں۔ ہمارے عہدیداران کمر کس لیں اور یہ کام انجام دیں۔ خاص طور پر ان شعبوں میں جو زیادہ پیچھے ہیں، جیسے یہی زراعت کا شعبہ جس کے بارے میں، میں نے عرض کیا۔ زراعت کے شعبے میں نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد، ہماری کل نالج بیسڈ کمپنیوں کی چار فیصد ہے۔ ان میں سے چار فیصد کمپنیاں، زراعت کے شعبے میں سرگرم ہیں جبکہ زراعت کا شعبہ اتنا زیادہ اہم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ زراعت کا مسئلہ بہت اہم ہے، مویشی پالنے کا مسئلہ بہت اہم ہے اور ملک کو غذائي مصنوعات میں ضرور مکمل سیکورٹی اور لازمی خودکفالت حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں گیہوں کے مسئلے میں، مویشیوں کی خوراک، مکئی، جو وغیرہ کے مسئلے میں اور تیل کے پروڈکشن کے خام مال کے مسئلے میں ضرور خودکفیل ہونا چاہیے۔ ہمیں مکئي میں، جو میں اور دوسری چیزوں میں جنھیں بنیادی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے، ضرور خود کفالت تک پہنچنا چاہیے اور یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ ملک بڑا ہے، وسائل زیادہ ہیں، ہمارے یہاں زرخیز زمینیں بہت زیادہ ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں زرخیز زمینیں ہیں، اگر ان پر کام کیا جائے، میں نے کچھ سال پہلے(4) خوزستان کے سلسلے میں ایک اقدام کی تعریف کی تھی، ترغیب دلائي تھی اور خوزستان اور ایلام کے بعض حصوں میں اسے انجام دیا گيا، تھوڑا بہت سیستان میں بھی کام ہوا۔ البتہ جس مقدار میں ہم نے چاہا تھا اور وعدہ کیا گيا تھا، اتنا تو نہیں ہوا لیکن بڑی حد تک انجام پایا۔ اسے پھیلایا جا سکتا ہے، اس کام کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں اچھی زرخیز زمینیں ہیں، انھیں بنیادی ضرورت کی چیزوں کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
یہ بھی عرض کر دوں کہ صدر محترم جناب رئيسی صاحب نے مجھے بتایا کہ بیرون ملک کے ایک دورے میں، اس ملک کے عہدیداروں نے ان سے کہا کہ آپ کے یہاں جتنی بھی مقدار میں تربوز، ٹماٹر اور ایسی ہی دوسری چیزیں ہوں جن کی آپ پیداوار کرتے ہوں، ہم آپ سے خرید لیں گے؛ انھوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کے پاس تو خود ہی زمین ہے، پانی ہے، زراعت کے اتنے زیادہ وسائل ہیں، زرخیز زمینیں ہیں، آپ ہم سے کیوں تربوز اور ٹماٹر وغیرہ خریدنا چاہتے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا کہ نہیں، ہم اپنی ان زمینوں کو ٹماٹر اور تربوز کے لیے صرف نہیں کریں گے، یہ زمینیں گیہوں کے لیے ہیں، مکئي کے لیے ہیں، چارے کے لیے ہیں؛ یہ بات صحیح ہے۔ البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ تربوز یا مثال کے طور پر ٹماٹر اور سبزی وغیرہ نہ اگائے جائيں؛ یہ سب ضروری ہیں لیکن ہمیں ملک میں موجود ان وسائل سے پہلے مرحلے میں اہم اور بنیادی غذائي مواد اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی پیداوار کرنی چاہیے، ہمیں ملک کے زیادہ سے زیادہ وسائل ان کے ذریعے تیار کرنے چاہیے۔
میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ ہمارے عزیز عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ ہم روٹی میں کس قدر اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں، کتنی روٹی ضائع کر دی جاتی ہے، سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا زراعت کا شعبہ، درآمدات پر منحصر ملک کا سب سے بڑا شعبہ ہے اور حد سے زیادہ منحصر ہے جسے ضرور متوازن بنایا جانا چاہیے۔ البتہ اس انحصار سے مقابلہ بڑا سخت کام ہے کیونکہ کچھ لوگ، زرعی مواد کی بیرون ملک سے درآمدات کے ذریعے بہت زیادہ منافع کما رہے ہیں، وہ مخالفت میں ڈٹ جائيں گے۔ کچھ سال پہلے میں نے ایک وزیر زراعت سے کینولا کے بارے میں، جو بناسپتی تیل کی پیداوار کا ایک خام مال ہے، کہا کہ اس معاملے کو دیکھیے؛ انھوں نے، کچھ تفصیلات بتائیں، لیکن مختصرا یہ کہا کہ کام نہیں کرنے دے رہے ہیں، کہتے ہیں ہمیں تیل کا خام مال درآمد کرنا چاہیے؛ مطلب کام نہیں کرنے دے رہے ہیں؛ شاید وزارت خانے میں، سرکاری اداروں میں موجود اپنے افراد سے بھی کام لیتے ہیں تاکہ خلاف ورزی کی جا سکے؛ لیکن ہمیں ڈٹنا ہوگا، کام سخت ہے لیکن یہ سخت کام کرنا ہی ہوگا۔
تو پہلی بات میں نے عرض کر دی، دو باتیں اور عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ملک کی ضرورت کے لحاظ سے نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد کم ہے اور اس میں اضافہ ہونا چاہیے، خاص طور پر زراعت کے شعبے میں اور دوسرے تمام شعبوں میں بھی۔ عہدیداروں کو کمر کس لینی چاہیے اور ان کے کمر کسنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مدد اور پشت پناہی کریں کیونکہ نالج بیسڈ کمپنیاں عوام کی ہیں۔ لوگ، نوجوان ان کمپینوں کو بناتے ہیں تاہم سرکاری اداروں کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ مدد بنیادی طور پر یہ ہے کہ ان کے پروڈکٹس خریدیں، استفادہ کریں یا اگر انھیں کچھ وسائل کی ضرورت ہے تو فراہم کریں۔ مجھے جو رپورٹ دی گئي ہے، اس میں ان وزارت خانوں کا نام لیا گیا ہے جو یہ مدد کر رہے ہیں اور ان وزارت خانوں کا نام بھی درج ہے جو مدد نہیں کر رہے ہیں جبکہ انھیں مدد کرنا چاہیے۔ اب یہ خود حکومت اور صدر محترم کا کام ہے کہ اسے دیکھیں، اس کا ہم سے بہت زیادہ تعلق نہیں ہے۔
بہرحال ہر شعبے میں نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد کو، حکومت میں اس شعبے کی پیشرفت کے لیے ایک معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم یہ دیکھیں کہ تیل، گيس اور ان سے وابستہ صنعتوں میں نالج بیسڈ کمپنیوں میں اضافہ ہوا ہے تو فرض کریں کہ وزیر پیٹرولیم کو اچھے نمبر دیں یا اگر اس کے برخلاف ہوا تو اچھے نمبر نہ دیں۔ میرے خیال میں یہ ایک کسوٹی ہے۔ تو یہ پہلی بات تھی کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بحمد اللہ یہ کام ممکن بھی ہے۔ یہ نہ کہا جائے کہ آپ مثال کے طور وسائل کا موازنہ بھی تو کیجیے! جی ہاں! وسائل کی ضرورت ہے لیکن وسائل میں سب سے اہم، افرادی قوت ہے۔ افرادی قوت کے لحاظ سے ہمارا ہاتھ بہت کھلا ہوا ہے۔ میں آپ سے عرض کروں کہ ہمارے اعلی تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد، ایک فیصد سے زیادہ، یہ فیصد مجھے ایک رپورٹ میں بتایا گيا ہے، ان شعبوں میں کام کر رہی ہے جس کی اس نے تعلیم حاصل نہیں کی ہے! کیوں؟ انھیں اس شعبے میں کام دیا جا سکتا ہے جس کی انھوں نے تعلیم حاصل کی ہے، ان کی مدد کی جا سکتی ہے، ان کی پشت پناہی کی جا سکتی ہے تاکہ یہ نالج بیسڈ کمپنیاں بنا سکیں۔ البتہ ان کی شناخت کرنی ہوگي، کام کرنا ہوگا۔ ہمارے یہاں ایسے افراد ہیں جو بڑے بڑے کاموں میں پیشرفت کر رہے ہیں۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے شعبے میں، ری کامبینینٹ دواؤں میں، نینو ٹیکنالوجی میں، بایو ٹیکنالوجیز میں، اسٹیم سیلز میں، یہ سب بڑے کام ہیں۔ ان میدانوں میں ہمارے یہاں بڑی تعداد میں نمایاں افراد ہیں۔ اس طرح کے نمایاں افراد کو ديگر میدانوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے اور یقینا ایسے افراد ہیں۔ جوان ماہر افرادی قوت ہمارے ملک میں بحمد اللہ، بڑی ثروتوں میں سے ایک ہے یا شاید ملک میں موجود سب سے بڑی ثروت ہے اور ان کے علم سے، ان کے حوصلے سے، ان نوجوانوں کی طاقت سے، ملک کو ثروت مند بنانے کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
البتہ یہ سب نالج بیسڈ کمپنیوں اور پیداوار کو نالج بیسڈ بنانے سے متعلق باتیں تھیں۔ میں نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا بھی ذکر کیا اور یہ بھی بہت اہم ہے۔ روزگار کے مواقع بھی انہی نالج بیسڈ کمپنیوں سے حاصل ہوں گے۔ یعنی اگر ہم صحیح معنی میں ان کمپنیوں کو وجود میں لے آئيں اور اس سلسلے میں ان غلطیوں کو نہ دہرائیں جو کبھی کبھی ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں، تو روزگار کے مواقع بھی بڑھ جائيں گے۔ میں نے کہا ماضی کی غلطیاں۔ ہماری مختلف حکومتوں کے دوران، الگ الگ ناموں سے کچھ پروجیکٹس رہے ہیں کہ لوگوں کو بینکوں کی جانب سے سہولیات فراہم کی جائيں تاکہ پیداوار کی شرح بڑھے۔ لگ بھگ یہ سارے ہی پروجیکٹس ناکام رہے۔ بے تحاشا پیسے خرچ کرنے اور بغیر سوچے سمجھے قدم اٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ کام بہت زیادہ سوچ سمجھ کر، اسٹڈی کرکے اور صحیح طریقے سے انجام دیا جانا چاہیے اور نالج بیسڈ کمپنیوں کی سرگرمیاں، زنجیر کی کڑیوں شکل میں سامنے آنی چاہیے۔ البتہ یہ بات بھی میرے ذہن میں تھی کہ حالیہ کچھ فیصلے بعض چھوٹی اور اوسط کمپنیوں کو نقصان پہنچائيں گی۔ حکومت اور بینکوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ یہ نقصان پہنچے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر ضرور توجہ دی جانی چاہیے۔
خیر، معیشت کے موضوع پر ذرا تفصیل سے بات ہو گئي جو اہم بھی ہے۔ میں نے گزشتہ سال، سال کے پہلے دن(5) کی تقریر میں یہ بات کہی تھی کہ ملک کی معیشت کو امریکا وغیرہ کی پابندیوں کے مسئلے سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ یہ نہ کہا جائے کہ جب تک پابندیاں ہیں، ایسا ہی رہے گا۔ نہیں! امریکیوں کی پابندیوں کے باوجود معیشت کے میدان میں پیشرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ بحمد اللہ ملک کی نئی پالیسیوں نے ثابت کر دیا کہ یہ بات صحیح ہے اور یہی کام کیا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود خارجہ تجارت کو فروغ بھی دیا جا سکتا، بڑھایا بھی جا سکتا ہے اور علاقائی معاہدے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ بحمد اللہ حکومت نے کیے، اسی طرح تیل کے مسئلے اور بعض دیگر اقتصادی مسائل میں ترقی و پیشرفت کی جا سکتی ہے اور بہتر پوزیشن حاصل کی جا سکتی ہے، بحمد اللہ یہ سارے کام ہوئے۔ جبکہ امریکا کی پابندیاں موجود تھیں۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے کوشش نہ کی جائے۔ نہیں! میں نے بارہا کہا ہے کہ جو لوگ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے، کرتے رہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم اس طرح آگے بڑھیں، ملک کا انتظام اس طرح چلائیں کہ پابندیاں، اس پر اہم اور کاری ضرب نہ لگا سکیں۔ پابندیاں کچھ نقصانات پہنچا سکتی ہیں لیکن ایسا ہو کہ ملک کی معیشت کو ایک بڑا نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ حکام اور عہدیداران کی ذمہ داری ہے اور ان شاء اللہ وہ اس پر عمل کریں گے۔ میں اس سال بھی وہی نصیحت کروں گا، اس سال بھی عرض کر رہا ہوں کہ ملکی مسائل کو پابندیوں سے نہ جوڑا جائے۔
اس سال میری ایک دوسری نصیحت بھی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مثال کے طور پر تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے، اس لیے تیل سے ہونے والی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گيا ہے، تو تیل کی آمدنی میں اضافے کا ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ دو طرح سے کام کیا جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ ہم کہیں کہ ہماری زر مبادلہ کی آمدنی زیادہ ہے، امپورٹ بڑھا دیا جائے، عوام کو آسائش حاصل ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں، اس (سوچ) کا ظاہری پہلو تو اچھا ہے لیکن باطنی پہلو بہت خراب ہے؛ یہ ملک کے بنیادی سرمایوں کی بربادی ہے۔ ایک دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم تیل کی آمدنی کو ملک کے انفراسٹرکچر کے لیے، ملک کے بنیادی کاموں کے لیے استعمال کریں، بنیادوں کو مضبوط بنائيں تاکہ ملک میں معیشت کی جڑیں گہری ہوں اور ہم ان سے استفادہ کر سکیں۔ یہ تو معاشی مسائل سے متعلق باتیں تھیں۔
جہاں تک دوسرے مسائل کی بات ہے تو دنیا میں بہت سارے مسائل ہیں اور ہمیں بھی عالمی مسائل کا سامنا ہے؛ مختلف میدانوں میں، ہیمں سوچنا چاہیے، غور و فکر کرنا چاہیے، فیصلہ کرنا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے۔ ہماری قوم جب آج دنیا کے موجودہ واقعات پر نظر ڈالتی ہے، دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، جب آپ اس پر نظر ڈالتے ہیں تو سامراج کے محاذ سے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور سچائي، پہلے سے زیادہ واضح اور عیاں دکھائي دیتی ہے۔ استکبار کے مقابلے میں ہماری قوم کا انتخاب جھکنا نہیں تھا، استقامت تھا، عدم انحصار تھا، خود مختاری کا تحفظ تھا، نظام، قوم اور ملک کی داخلی تقویت تھا؛ یہ قومی فیصلے ہیں؛ یہ صحیح تھے۔ جب ہم عالمی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ صحیح ہے۔
آپ افغانستان کے حالات پر ایک نظر ڈالیے، دیکھیے، امریکیوں کے انخلاء کے طریقۂ کار کو دیکھیے؛ پہلے تو بیس سال تک افغانستان میں رہے اور اس مظلوم مسلمان ملک میں انھوں نے کیا کچھ کیا؟ پھر کس طرح سے باہر نکلے اور عوام کے لیے کس طرح کی مشکلات پیدا کر دیں؟! افغان قوم کا سرمایہ بھی وہ اسے نہیں لوٹا رہے ہیں! یہ افغانستان ہے؛ وہ یوکرین ہے جس کا صدر مغرب کے سلسلے میں - جسے خود مغرب والوں اور مغربی حکومتوں نے اقتدار تک پہنچایا ہے - کیسا تند لہجہ استعمال کرتا ہے؛ یہ یمن کے حالات ہیں اور یمن کے مظلوم اور حقیقی معنی میں مزاحمت کار عوام پر روزانہ کی بمباری ہے؛ یہ سعودی عرب کی کارستانی ہے کہ ایک دن میں اسّی لوگوں کی گردن اڑا دی جاتی ہے! اسّی نوجوانوں کی، یہاں تک کہ بچوں کی بھی - جیسا کہ خبریں موصول ہوئي ہیں - ان باتوں کو جب انسان دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ دنیا میں کیسا ظلم حکمفرما ہے؛ دنیا میں کیسی تاریکی کی حکمرانی ہے؛ دنیا کیسے خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھ میں ہے۔
یوکرین کے مسئلے میں مغرب کی نسل پرستی سبھی نے دیکھی۔ ان پناہ گزینوں کی ٹرین کو جو ملک سے اور جنگي مشکلات سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہیں تاکہ سیاہ فام کو سفید فام سے الگ کریں اور سیاہ فام کو ٹرین سے نیچے اتار دیں۔ اپنے میڈیا میں کھلے عام اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ اس دفعہ جنگ مشرق وسطی میں نہیں ہے، یورپ میں ہے۔ یعنی اگر جنگ، خونریزی اور برادر کشی مشرق وسطی میں ہو - البتہ ان علاقوں میں جو ان کے بقول مشرق وسطی ہے - اور یہاں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر یورپ میں ہو تو غلط ہے۔ اتنی واضح اور آشکارا نسل پرستی! کھل کر اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں، آشکارا اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا میں ان کے فرمانبردار ملکوں میں بہت ظلم ہوتا ہے مگر ان کے منہ سے آواز تک نہیں نکلتی اور اتنے ظلم و ستم اور ظلمتوں کے باوجود وہ انسانی حقوق کے دعوے بھی کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے دعوؤں کی مدد سے وہ خود مختار ممالک سے غنڈہ ٹیکس وصول کرنا چاہتے ہیں، انھیں دھمکیاں دیتے ہیں؛ ایرانی قوم ان حالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے؛ البتہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ہمارے خیال میں یہ ظلم و جارحیت اور استعمار کے میدان میں عصر حاضر کا سب سے شرمناک دور ہے جسے دنیا کی طاغوتی طاقتیں رقم کر رہی ہیں اور دنیا کے عوام ان مظالم کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں اور یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کا نظام کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔
البتہ ایرانی قوم نے ان برسوں میں اپنے طریقۂ کار کو روز بروز بہتر سے بہتر بنایا ہے اور سنجیدگي کے ساتھ، منطقی طریقے سے اور ٹھوس انداز میں آگے بڑھی ہے۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ کام، کوشش اور لگن کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہمدلی اور تعاون کی ضرورت ہے؛ ہماری عزیز قوم کے درمیان ہمدلی اور تعاون، اتحاد اور وحدت۔ اسی طرح ہمیں ملک کے ذمہ داروں کے درمیان تعاون اور ہمدلی کی ضرورت ہے؛ انھیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ کچھ لوگ ہیں جو فرنٹ لائن پر کام کر رہے ہیں؛ دوسروں کو ان کی مدد کرنی چاہیے؛ ان کی پشت پناہی کرنی چاہیے اور حکومت، مقننہ، عدلیہ، مسلح فورسز اور مختلف شعبوں کے دوسرے لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، ایک دوسرے سے ہمدلی کرنی چاہیے اور قوم کو بھی ملک کے ذمہ داروں کے ساتھ حقیقی معنی میں ہمدلی رکھنی چاہیے، ان کی حمایت اور مدد کرنی چاہیے۔
انسان کبھی کبھی قوم کے افراد یا عہدیداروں یا پھر قوم اور عہدیداروں کے درمیان کچھ تنازعات دیکھتا ہے، جن میں سے زیادہ تر پوچ ہوتے ہیں؛ انسان دیکھتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر وہم و گمان اور خام خیالی پر مبنی ہیں اور بعض اوقات تقوی نہ ہونے کی وجہ سے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ انیس سو اسی کے عشرے میں، جب ملکی حکام کے درمیان بہت زیادہ اختلافات تھے، اپنی تقریروں میں ہمیشہ یہ بات دوہرایا کرتے تھے کہ یہ اختلافات، نفسانی خواہشات کی وجہ سے ہیں؛ واقعی ایسا ہی ہے۔ ان میں سے بہت سے اختلافات اور تنازعات، نفسانی خواہشات اور تقوی نہ ہونے کی وجہ سے ہیں؛ ہمیں انھیں الگ رکھنا چاہیے اور ایرانی قوم کے اتحاد کو، خیر کی راہوں میں، چاہے وہ علمی و سائنسی راہیں ہوں، چاہے عملی راہیں ہوں، چاہے استقامتی راہیں ہوں، چاہے عمومی خدمات کی راہیں ہوں، اپنے ان تنازعات سے منہدم نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے: وَ لا تَنازَعُوا فَتَفشَلُوا وَ تَذھَبَ ریحُکُم (6) اگر ہم نے اختلاف اور تنازعہ کیا تو یہ ہوگا۔
ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند متعال، ایرانی قوم کے دل کو روز بروز زیادہ خوش کرے، اس زیادہ کامیاب اور زیادہ سعادت مند بنائے، ہمدرد اور خیرخواہ عہدیداروں کی توفیقات میں روز بروز اضافہ کرے اور ان کی مدد کرے جو حقیقت میں قوم کا درد رکھتے ہیں، قوم کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔ ان شاء اللہ تمام تمام لوگ، پوری ایرانی قوم حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ ارواحنا فداہ کی خالص دعاؤں کا حصہ بنے اور خداوند عالم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہر کو ان شاء اللہ ان کے اولیاء کے ساتھ محشور کرے؛ ملک کے عزیز شہیدوں اور نمایاں شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو - حالانکہ تمام شہداء نمایاں ہیں؛ میں مختلف شہداء کے حالات اور کتابوں کو پڑھتا ہوں جن میں سے بہت سے شہیدوں کے نام تو بہت سارے لوگوں نے سنے بھی نہیں ہیں، انسان دیکھتا ہے کہ واقعی وہ لوگ بڑے نمایاں انسان تھے، صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

(1) احتجاج طبرسی، جلد 2، صفحہ 493 (زیارت آل‌ یاسین)
(2) یوم شجرکاری پر پھل کے دو پودے لگانے کے بعد خطاب، (6/3/2022)
(3) مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے زائرین اور مقامی افراد سے خطاب، (21/3/2009)
(4) صدر اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں خطاب، (26/8/2015)
(5) سنہ 1400 کے پہلے دن کی مناسبت سے ٹیلی ویژن پر کی گئي تقریر (21/3/2021)
(6) سورۂ انفال، آيت 46، آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ تم کمزور ہو جاؤ گے اور تمھارا رعب ختم ہو جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .