حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئے ہجری شمسی سال 1402 (21 مارچ 2023 الی 19 مارچ 2024) کے آغاز پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حسب معمول پیغام نوروز جاری کیا جس میں آپ نے ختم ہونے والے سال کے اہم واقعات کا سرسری جائزہ لیا اور نئے سال کے اہم اہداف اور کلیدی نعرے پر روشنی ڈالی۔
پیغام حسب ذیل ہے:
بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب والابصار، یا مدبّر اللّیل و النّہار، یا محوّل الحول و الاحوال حوِّل حالنا الی احسنِ الحال
(اے دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والے، اے رات اور دن کا نظام چلانے والے، اے سال اور احوال کو تبدیل کرنے والے! ہماری حالت کو سب سے اچھی حالت میں تبدیل کر دے۔)
ایرانی قوم کی فرد فرد کو عید نوروز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، خاص طور پر شہیدوں کے معزز اہل خانہ کو، جنگ میں اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو، جنگ میں ایثار سے کام لینے والوں کو، عوام کے لیے خدمت انجام دینے والوں کو اور اسی طرح ان دوسری اقوام کو بھی جو نوروز مناتی ہیں اور اسے اہمیت دیتی ہیں۔ ان شاء اللہ آپ سبھی کو یہ باشرف عید مبارک ہو۔
اس سال فطرت کی بہار کی آمد، معنویت و روحانیت کی بہار یعنی ماہ رمضان کے ساتھ ہوئی۔ جس طرح سے بہار کے بارے میں کہا گيا ہے کہ "تن مپوشانید از باد بہار" (نسیم بہاری سے اپنے تن کو نہ بچاؤ)، اسی طرح ماہ مبارک رمضان کی روحانیت کی بہار کے بارے میں بھی ہمیں اس جملے کو مدنظر رکھنا چاہیے: "الا فتعرضوا لھا"، "ان فی ایام دھرکم نفحات الا فتعرضوا لھا" (بے شک تمھاری دنیا کے اوقات میں کچھ مناسب موقع ہیں، ان سے ضرور فائدہ اٹھاؤ۔) رمضان کے مبارک مہینے میں روحانیت کی نسیم، سبھی کے شامل حال ہے اور ہمیں اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے دلوں کو اس روحانی، الہی اور معطر ہوا کے جھونکے کے سامنے رکھنا چاہیے۔
اس وقت میں اپنی اس گفتگو میں سنہ 1401 (ہجری شمسی 21 مارچ 2022 الی 20 مارچ 2023) پر ایک سرسری نظر ڈالوں گا اور اسی طرح اس وقت شروع ہونے اس سال، 1402 پر بھی اجمالی نظر ڈالوں گا۔ سنہ 1401 (ہجری شمسی) مختلف واقعات و تغیرات کا سال تھا، چاہے وہ معاشی تغیرات ہوں، چاہے سیاسی واقعات ہوں، چاہے سماجی واقعات ہوں۔ ان میں سے کچھ شیریں تھے تو کچھ تلخ، انسان کی زندگي کے تمام برسوں اور خاص طور پر ایک وسیع نگاہ میں اسلامی انقلاب کے بعد کے ایرانی قوم کے دیگر برسوں کی ہی مانند۔ میرے خیال میں سنہ 1401 (ہجری شمسی) میں قوم کے سامنے جو سب سے اہم مسئلہ تھا وہ ملک کی معیشت کا مسئلہ تھا جو عوام کی روز مرہ کی زندگی سے براہ راست جڑا ہوا تھا۔ اس معاملے میں بھی، معیشت کے معاملے میں بھی کچھ تلخیاں تھیں، کچھ شیریں باتیں بھی تھیں۔ بعض شعبوں میں، جن کی طرف میں اشارہ کروں گا، کچھ تلخی تھی تو بعض معاملوں میں شیریں باتیں بھی تھیں جو معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان سب کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے اور مجموعی طور پر ان پر نظر ڈالنی چاہیے۔ تلخیوں میں زیادہ تر افراط زر اور مہنگائي تھی جو واقعی تلخ ہے۔ خاص ور پر غذائي اشیاء اور زندگي کی بنیادی ضرورت کے وسائل کی مہنگائي، جب غذائي اشیاء اور زندگي کے بنیادی وسائل کی قیمت میں کافی اضافہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ دباؤ، سماج کے سب سے نچلے طبقوں پر آتا ہے۔ کیونکہ فیملی باسکٹ میں ان کے لیے سب سے بڑا حصہ غذائي اشیاء اور زندگي کے بنیادی اور ضروری وسائل کا ہوتا ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ دباؤ ان پر پڑتا ہے اور یہ چیز تلخیوں میں سے تھی اور میرے خیال میں ملک کے اہم معاشی مسائل میں، یہ چیز زیادہ بنیادی اور زیادہ اہم تھی جو تلخ تھی۔
البتہ اسی معاشی شعبے میں بہت سے اچھے کام بھی انجام پائے اور ایسے تعمیراتی کام بھی ہوئے جو معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان کی طرف میں اشارہ کروں گا، ان تعمیراتی کاموں کو جاری رہنا چاہیے یہاں تک کہ وہ عوام کی زندگي اور ان کی معیشت کی بہتری پر منتج ہوں اور ان سے جڑ جائيں۔ پروڈکشن کی حمایت ہوئي، سنہ 1401 (ہجری شمسی) میں، جہاں تک میرے پاس معلومات ہیں، ملک میں پروڈکشن کی حمایت کی گئي۔ کئي ہزار بند پڑے اور گنجائش سے کم کام کرنے والے کارخانوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، البتہ جتنی تعداد کی میں نے پچھلے سال سفارش کی تھی، اتنی تعداد میں اضافہ تو نہیں ہوا لیکن ان کمپنیوں کی تعداد میں قابل توجہ حد تک اضافہ ہوا۔ ان کمپنیوں کے پروڈکٹس کی قدر میں بھی اضافہ ہوا۔ روزگار کے مسئلے میں بھی کچھ پیشرفت ہوئي، یعنی بے روزگاری میں کچھ فیصد – کچھ ہی فیصد سہی– کمی ہوئي اور روزگار میں کسی حد تک اضافہ ہوا جو بہرحال غنیمت ہے۔ وہ نمائش جو سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کے صنعت کاروں نے لگائي تھی اور اسی طرح وہ نشست بھی، جس میں ملک کے اہم صنعتکاروں نے حصہ لیا اور ان میں سے بعض نے اپنے خیالات بھی پیش کئے، واقعی مسرت بخش تھی۔ ملک کے صنعتکاروں کے پروڈکشنز کے بارے میں میری رائے، مثبت ہے اور اچھا کام انجام پایا ہے۔ بعض معاشی اشاریوں میں پیشرفت ہوئي، انشورینس میں ہمارے انڈیکیٹرز اچھے ہیں۔ تعمیرات میں، پانی، گيس، سڑک، ماحولیات وغیرہ کے شعبوں میں اچھے کام ہوئے ہیں۔ البتہ جیسا کہ میں نے کہا اور اب زور دے کر عرض کر رہا ہوں، ان کاموں کو عوام کی زندگي میں اپنا اثر دکھانا چاہئے، عوام کی زندگي میں آسائش پر منتج ہونا چاہیے۔ یہ کام کب ہوگا؟ کب ایسی صورتحال بنے گي؟ جب یہ سلسلہ جاری رہے، جب ان کاموں کے سلسلے میں ٹھوس اور گہری منصوبہ بندی ہوگي، ان شاء اللہ اس سال، سنہ 1402 (ہجری شمسی) میں یہ کام جاری رہیں گے تاکہ یہ تعمیری کام، لوگوں کی زندگي میں رونق اور لوگوں خاص طور پر کمزور طبقوں کے دسترخوان میں گشائش پر منتج ہوں۔ البتہ یہ نکتہ بھی مدنظر رہنا چاہیے: معاشی مسائل اور معاشی مشکلات صرف ہمارے لیے ہی نہیں ہیں۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک، شاید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو خاص معاشی مسائل کا سامنا ہے، یہاں تک کہ دولتمند ممالک، مضبوط اور پیشرفتہ معیشت رکھنے والے ممالک کو بھی۔ واقعی ان کے سامنے بہت زیادہ سخت مسائل اور دشواریاں ہیں۔ اس لحاظ سے بعض ممالک کی صورتحال تو ہم سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے۔ مضبوط معیشت والے ممالک میں بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں جس کی خبر آپ نے ابھی حال ہی میں سنی ہے۔ البتہ بعض ممالک کی خبریں دی گئيں اور بعض کی نہیں دی گئيں لیکن وہ خبریں سامنے آ ہی جائيں گی۔ بعض ملکوں میں بینکوں کا دیوالیہ پن ہے، کھربوں کے غیر معمولی قرضے ہیں اور یہ سب مشکلات ہیں، وہاں بھی ہیں، یہاں بھی ہیں۔ وہ بھی انھیں برطرف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے، کام کرنا چاہیے، عہدیداروں کو کام کرنا چاہیے۔ میری گزارش ہے کہ سرکاری عہدیداروں کی پوری کوشش، ان کے علاوہ معیشت کے شعبے میں کام کرنے والوں، سیاسی اور ثقافتی کارکنوں کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم سنہ 1402 (ہجری شمسی) کو، ایرانی قوم کے لیے ایک شیریں سال بنا دیں۔ یعنی ہم کچھ ایسا کریں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ان شاء اللہ، عوام کے لیے نیا سال، ایک شیریں سال ہو، تلخیاں کم ہوں، شیرینیاں بڑھتی جائيں اور ان شاء اللہ ہم کامیابیوں میں اضافہ کرتے جائيں۔
اب سنہ 1402 (ہجری شمسی) کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سنہ 1402 میں بھی ہمارا کلیدی مسئلہ، معیشت کا مسئلہ ہی ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے مسائل کم نہیں، مختلف مشکلات ہیں، ثقافت کے شعبے میں، سیاست کے شعبے میں لیکن اس سال میں بھی ہمارا اصلی اور بنیادی مسئلہ، معیشت کا ہی ہے۔ یعنی اگر ہم ان شاء اللہ معاشی مسائل کو کم کر سکے اور ان شاء اللہ عہدیداروں نے اس شعبے میں ہمت سے کام لیا، غور و فکر کیا اور اہم کوششیں کیں تو ملک کے بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ حکومت بھی، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) بھی، معاشی شعبے میں کام کرنے والے بھی اور جوان اور پرجوش جوان عوامی گروہ بھی، جن میں سے بعض گروہوں کو میں پہچانتا ہوں اور ان سے واقعی وابستگی رکھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اسی معیشت کے مختلف شعبوں میں بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔ ان سب کی کوشش، ملک کی مشکلات اور عوام کی مشکلات کو دور کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ ان مشکلات کو دور کرنے کا کام کبھی بنیادی معاشی کاموں کے ذریعے ہوتا ہے جیسے پیداوار جو معیشت میں ایک بنیادی کام ہے، یعنی پروڈکشن، اقتصادیات میں ایک بنیادی کام ہے، یا انسانی اور اسلامی کاموں کے ذریعے ہوتا ہے جیسے معاشرے کے کمزور طبقوں کی دستگیری، ان کے لیے عوامی امداد اور عوامی تعاون۔
البتہ میں نے جو پروڈکشن کہا اور پیداوار پر زور دیا تو پروڈکشن کے ساتھ سرمایہ کاری بھی اہم ہے۔ اس پر محترم حکومتی عہدیدار بھی توجہ دیں اور نجی سیکٹر کے لوگ بھی توجہ دیں، ہم 2010 کے عشرے میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک اہم خلا، سرمایہ کاری ہے۔ سرمایہ کاری ہونی چاہیے، یہ بھی ایک اہم کام ہے۔
تو میں تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے، افراط زر کو بھی، ملکی پیداوار کو بھی، یہ چیزیں جو اہم ہیں، افراط زر جو اصل مشکل ہے، ملکی پیداوار جو یقینی طور پر معاشی مسائل سے ملک کی نجات کی کنجیوں میں سے ایک ہے، ان سب کو مدنظر رکھ کر، سال کے نعرے کا اس طرح اعلان کرتا ہوں: "افراط زر پر کنٹرول، پیداوار کا فروغ"، یہ (اس) سال کا نعرہ ہے۔ مطلب یہ کہ عہدیداروں کی تمام تر کوشش ان دو موضوعات پر مرکوز ہونی چاہیے۔ پہلے مرحلے میں سرکاری عہدیداران اور اگلے مرحلے میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، معاشی کارکن، عوامی کارکن، وہ لوگ جو کچھ کر سکتے ہیں، ثقافتی کارکن، ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ جسے ان معاملوں میں ثقافت سازی کرنی چاہیے، یہ سبھی ان دو اصلی نکات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، پہلے مرحلے میں افراط زر پر کنٹرول یعنی افراط زر کو حقیقت میں کنٹرول کریں اور کم کریں، جہاں تک ممکن ہو کم کریں اور پھر پروڈکشن بڑھائيں۔ بنابریں نعرہ ہوا: افراط زر پر کنٹرول، پیداوار کا فروغ۔
خداوند عالم سے سبھی کے لیے توفیق کی دعا کرتا ہوں، اپنا سلام، عقیدت اور اخلاص، عالم ہستی کی روح حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی پاکیزہ روح اور عزیز شہداء کی پاکیزہ ارواح کے لیے خداوند عالم سے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہوں اور ایرانی قوم کے لیے خداوند متعال سے سعادت، مسرت اور حیات نو کی دعا کرتا ہوں۔
کچھ اور باتیں بھی ہیں جنھیں ان شاء اللہ میں اپنی تقریر میں عرض کروں گا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ