۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
مولانا عباس مہدی حسنی

حوزہ/ اسلامی مقدسات خصوصا نبی رحمت کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا مسلمانوں کو انکا نبی اتنا عزیز ہے کہ وہ اپنا جان و مال و اولاد تو قربان کر سکتے ہیں لیکن حبیب خدا کی شان میں کسی بھی قسم کی جسارت برداشت نہیں کر سکتے۔ البتہ اس قبیح اور مذموم حرکت کے خلاف جو بھی اقدام ہو وہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر ہو اور اسے آئین ہند کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ عالم دین اور حوزہ علمیہ قم کے ممتاز مفکر اور استاد حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی ہندوستان کی موجودہ صورتحال کے تعلق سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ برسر اقتدار حکومت نے جس طرح اپنے دور حکومت میں اقلیتوں کے مقدسات کی توہین کی بالکل چھوٹ دے رکھی ہے اور آئے دن میڈیا اور دھرم سانسد جیسے مغرضانہ پروگراموں کے ذریعہ اقلیتی فرقوں کے مقدسات کی توہین کی بدعت کا چلن ہو چکا ہے جب کہ کوئی بھی دین و دھرم اسی طرح آئین ہند بھی کسی دھرم کے توہین مقدسات کی بالکل اجازت نہیں دیتا انتہا تو تب ہو گئی جب ابھی چند روز قبل موجودہ حکومت کے بعض کارندوں نے مسلمانوں کے جان و دل سے زیادہ عزیز پیغمبر حضرت محمد (ص) کی توہین میں نازیبا الفاظ استعمال کئے اور دو ارب عقیدت مندوں کے دلوں کو مجروح اور مغموم کردیا۔

ڈاکٹر عباس مہدی حسنی نے کہا کہ اسی اثناء میں بعض عرب اور اسلامی ممالک نے اپنی اسلامی بیداری کا ثبوت دیا اور بی جے پی کے اراکین کے ذریعے کی گئی شان رسالت مآب میں کستاخی کی پرزور مذمت کی جس کے منفی نتائج کے سبب اپنی عالمی ساکھ بچانے کے لئے حکومت حرکت میں آئی اور پارٹی نے اپنے دونوں ممبران کو وقتی طور پر معزول کردیا جو کہ ناکافی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ خود ہندستانی مسلمان بھی رسول رحمت سے اپنی عمیق عقیدت کے باعث یہ توہین برداشت نہ کرسکے اور مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

مزید اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندستانی آئین کے مطابق احتجاج ہر ھندستانی شہری کا ذاتی حق ہے- لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ پر امن احتجاج بعض جگہوں پر تشدد میں تبدیل ہو گیا جو کہ قطعاً نہیں ہونا چاہیئے تھا آئیں ہند کے علاؤہ دین اسلام بھی کسی بھی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دیتا- یہ پر امن احتجاج تشدد کی شکل کیوں اختیار کرگئے اسکے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں- البتہ میری نظر میں ایسے تشدد والے مظاہروں کی جڑوں کو پیدا کردہ نفرتی ماحول اور توہین مقدسات کے جرم کی سنگینی میں تلاش کرنا چاہیئے - جس میں اہم کردار ان ھندو شدت پسند تنظیموں کا ہے جنکی متعصبانہ اور ظالمانہ حرکتوں پر حکومت ہمیشہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اگر حکومت بر وقت موثر اقدام کرتی رہتی تو شاید یہ دن نہ دیکھتے پڑتے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی مقدسات خصوصا نبی رحمت کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا مسلمانوں کو انکا نبی اتنا عزیز ہے کہ وہ اپنا جان و مال و اولاد تو قربان کر سکتے ہیں لیکن حبیب خدا کی شان میں کسی بھی قسم کی جسارت برداشت نہیں کر سکتے۔ البتہ اس قبیح اور مذموم حرکت کے خلاف جو بھی اقدام ہو وہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر ہو اور اسے آئین ہند کے خلاف نہیں ہونا چاہئے۔

مزید کہا کہ توہین ناموس رسالت کے خلاف اور دیگر مسائل کے سلسلہ میں دو اہم اور بنیادی نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے اول یہ کہ ملکی سطح پر مسلم قیادت تشکیل دی جانی چاہئے چاہے وہ شورا ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو جس میں تمام یا اکثر اسلامی فرقوں کی نمائندگی ہو- دوم عالمی سطح پر مسلمان ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں عملی اقدامات کئے جاسکیں جیسا کہ توہین نبی اکرم (ص) کے خلاف بعض ممالک ہم آواز ہوئے اور یکدلی و ہمدلی کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آئی اور مسلمان حکومتوں کی اتحادی تاثیر کیا ہو سکتی ہے؟ کسی حد تک سب کے لئے واضح ہوتی دکھائی دی۔

قابل ذکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ سے تمام مسلمانوں خصوصاً عرب اور اسلامی ممالک کے اتحاد پر زور دیتا آیا ہے چونکہ اسی میں امت مسلمہ کے مسائل کا حل اور انکی ترقی کا راز مضمر ہے آج اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو بہت سارے اہم مسئلے من جملہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کا مسالہ بہت جلد حل ہو جائے گا-

{وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌۔۔۔} (آل عمران/203)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .