حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے سنیچر کو دوپہر سے پہلے عوامی طبقات، اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عید الفطر کی مناسبت سے ہونے والی اس ملاقات میں ماہ رمضان کو مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی راہ ہموار کرنے والا موقع بتایا اور کہا کہ اسلامی ملکوں کے حکام کو امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے اور اختلافات کو کم اور دور کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انھوں نے جنگ، اختلافات، ٹکراؤ، انحصار، غربت اور سائنسی پیشرفت کے فقدان جیسے اسلامی ملکوں کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر "حبل اللہ" کے محور پر اتحاد کے قرآنی فرمان پر عمل کیا جائے تو عالم اسلام اپنی تقریبا دو ارب کی آبادی اور دنیا کے سب سے اہم اور سب سے حساس جغرافیائي علاقوں کا مالک ہونے کی حیثیت سے مشکلات کے حل کے راستے پر قدم بڑھا سکتا ہے۔
انھوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام کے سب سے بنیادی مسائل میں سے ایک قرار دیا اور غاصب صیہونی حکومت کے تدریجی زوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ زوال، جو کچھ سال پہلے شروع ہوا ہے، اب رفتار پکڑ چکا ہے اور عالم اسلام کو اس زبردست موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو صرف اسلامی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ بتایا اور غیر اسلامی ملکوں میں یوم قدس کے موقع پر نکالی جانے والی ریلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یوم قدس کے موقع پر امریکا اور یورپی ملکوں میں صیہونیت مخالف مظاہرے، غاصب صیہونیوں کے جرائم کے روزبروز زیادہ آشکار ہونے کا نتیجہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حمایت کے مظاہروں میں یورپ کے لوگوں کی شرکت، وہ بھی ان ملکوں میں جو صیہونیوں کے قریب ہیں، بہت زیادہ اہم ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے غاصب صیہونی حکومت کی اس تباہی کا اصلی سبب، فلسطینی عوام کی بابرکت اندرونی مزاحمت اور فلسطینی جوانوں کی ہتھیلی پر جان رکھ کر کی جانے والی کارروائيوں کو بتایا اور کہا کہ آج مقبوضہ علاقوں کی حالت سے ثابت ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں میں فلسطینی قوم کی مزاحمت و استقامت جتنی زیادہ ہوگی، جعلی حکومت اتنی ہی کمزور ہوتی جائے گي۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی دفاعی طاقت کو بھی رو بہ زوال بتایا اور کہا کہ کئي عشرے پہلے جعلی حکومت کے بانیوں میں سے ایک بن گوریون نے کہا تھا کہ جب بھی ہماری دفاعی طاقت ختم ہو جائے گی، ہم بکھر جائيں گے اور آج دنیا اس حقیقت کو دیکھ رہی ہے اور اگر کوئي اتفاق نہ ہوا تو غاصب حکومت کا خاتمہ قریب ہے اور یہ غرب اردن اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے ایثار پیشہ جوانوں کی فداکاری کی برکت ہے۔
انہوں نے ان حقائق کے مدنظر فلسطین کے اندر سرگرم فورسز کو عالم اسلامی کی آج کی ضروری حکمت عملی بتایا اور کہا کہ استقامتی محاذ کو اپنی مجاہدتوں کے ساتھ ساتھ اور تمام اسلامی ملکوں کو فلسطین کے اندر مجاہدین کی تقویت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اور اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے، اسلام کی جانب رجحان کو، فلسطینی گروہوں کی مجاہدت کے زور پکڑنے کا اہم سبب بتایا اور کہا کہ پچھلے زمانے میں جب، اسلامی رجحان نہیں تھا، یہ پیشرفت بھی نہیں تھی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ معاندین کو بخوبی اندازہ ہے کہ فلسطینی قوم اور دیگر اقوام کی تقویت میں اسلامی رجحان کا کیا کردار ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کی دشمنی پر تلے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا البتہ اللہ کے فضل و کرم اور مسلمان اقوام کی بصیرت کی وجہ سے یہ اسٹریٹیجی کامیاب نہیں ہوگي۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کی حمایت میں امام خمینی اور اسلامی جمہوریہ کے پیش پیش رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حمایت جاری رہے گي اور ہمیں امید ہے کہ ایرانی قوم ایک دن اس بات کی شاہد ہوگي کہ تمام اسلامی ملکوں کے مسلمان پوری آزادی سے قدس شریف میں نماز پڑھیں گے۔
اس ملاقات کی ابتداء میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی نے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان تعاون پر مبنی عید فطر کے خطبے میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی خدمت اور مسائل کےحل کے لیے تینوں قوتیں آپس میں بھرپور تعاون کریں گي۔