۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
دیدار مردمی نماینده ولی فقیه در خوزستان و مسئولان استانی در نماز جمعه آبادان

حوزه/ ملاقات کے مختلف طریقے ہیں ان میں مصافحہ، معانقہ اور تقبیل جیسے طریقے سرفہرست ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ مصافحہ، معانقہ اور تقبیل کسے کہتے ہیں؟ ان کو عمل میں کیسے لائیں؟

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| واقعۂ کربلا کے چشم دید گواہ، امام زین العابدینؑ کے چشم چراغ اور پانچویں امام، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ مصافحہ امر امانت اہلبیت علیہم السلام ہے۔ خدا کی صفت بیان کرنے پر قادر نہیں اور ہماری صفت بھی بیان کرنے میں قدرت نہیں رکھتے۔ کیا علماء کرام، مومنین اور شیعوں نے کوتاہی کی؟ (اصول کافی، جلد 4، صفحہ 87)

امت مسلمہ بخوبی واقف ہے کہ علمائے کرام وارث رسولؐ ہیں۔ لہٰذا کلام الٰہی، اُم الکتاب، قرآن حکیم میں ہر خشک و تر موجود ہے جس کی تعلیم، تبلیغ و تشہیر سبھی عالموں پر فرض ہے۔ منبر اور محراب کے قریب اور معاشرے میں واضح طور پر مصافحہ، معانقہ اور تقبیل کرتے ہوئے نمونہ پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے، مصافحہ، معانقہ اور تقبیل کیا ہے، ان کو عمل میں کیسے لائیں، اس کی اہمیت کی وضاحت کی جائے، اس کا فضل و کرم یہ ہوگا کہ ہمارے نوجوان و نوخیز طبقے میں اہمیت معلوم ہوگی اور رفتہ رفتہ فروغ پائے گا۔

مُصافحہ کا معنی ہے ملاقات کے وقت ہاتھ سے ہاتھ ملانے کا فعل۔ جب پروردگار عالم نے اپنے محبوب کو مکمل نمونہ عمل قرار دیا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ تاجدار انبیاء نے کس طرح سے مصافحہ کا فعل عمل میں لایا کرتے تھے اس کو جاننے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم نے اس عمل کو تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی دور میں تبدیل تو نہیں کردیا یا نابلد ہو گئے۔ مُشفق من مومنین کرام اور علماء کرام کے ذہن عالیہ کے لیے تحریر کرنا لازمی ہے کہ حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام فرماتے ہیں "رسول اکرم (ص) جب مصافحہ کرتے تو اپنا ہاتھ کبھی نہ ہٹاتے جب تک دوسرا شخص اپنا ہاتھ نہ ہٹاتا لیتا تھا۔" (اصول کافی، جلد 4، صفحہ 90) کاش مصافحہ کی اہمیت پر تدبر و تفکر کیا ہوتا! حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب دو مومن ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو خدا کا دستٍ رحمت ان کے ہاتھوں کے درمیان ہوتا ہے اور مصافحہ ان کے درمیان محبت کو بڑھاتا ہے۔

سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کے مالک امیر المؤمنین حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا "جب دو مومن ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو خدا کی رحمت کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے درمیان ہوتا ہے اور مصافحہ سے ان کے درمیان بہت زیادہ محبت پیدا ہوتی ہے اور جب اللہ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ان کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درخت سے پتے۔"

جب دو مومن، دو دوست یا دو بھائی آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تبارک تعالٰی ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ تبھی تو محبوب کبریا نے اپنی امتیوں سے فرمایا جب تم میں سے اپنے بھائی سے ملے تو چاہیے سلام کرے اور مصافحہ کرے خدا نے اس مصافحہ سے ملائکہ کو مکرم بنایا ہے پس تم بھی وہ کرو جو ملائکہ کرتے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے تو یہ بھی فرمایا کہ جب کوئی اپنے رفیق سے مصافحہ کرتا ہے اور جو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رہے اس کا مرتبہ اس سے زیادہ ہے جو مصافحہ ختم کرے۔ حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ مصافحہ کیا کرو کہ وہ دل سے حسد اور کینہ کو دور کر دیتا ہے۔

مُعانقہ کا مطلب ہے بغل گیر ہونا (گلے ملنا)۔ ایسا کہیں نہیں لکھا ہے کہ گلے صرف عیدالفطر اور عید الضحٰی میں ملیں۔ یوم جمعہ جو کہ سید الیوم کہلاتا ہے اس روز بھی مصافحہ اور معانقہ کو عمل میں لایا جانا چاہیے لیکن جب معانقہ کے معنی سے واقفیت ہی نہیں تو عمل میں کیسے اور کیونکر لایا جائے۔

الشیخ کلینی علیہ الرحمہ کی معروف و مستند کتاب، اصول کافی کے بٰابُ المُعٰانٓقٓتہٍ، جلد 4، صفحہ 93-92 پر الذکر ہے کہ امام باقرؑ اور امام الصادقؑ سے منقول ہے کہ جب کوئی مومن بھائی زیارت کو نکلتا ہے اس کا حق پہچان کر تو اللہ اس کے ہر قدم پر ایک حسنہ لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جب وہ دق الباب کرتا ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جب دونوں ملتے اور معانقہ کرتے ہیں تو خدا ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے پھر مباہات کرتا ہوا ملائکہ سے کہتا ہے: "دیکھو میرے ان دونوں بندوں کو یہ ایک دوسرے سےملتے ہیں میری خوشنودی کے لیے۔"

مصافحہ اور معانقہ کے معنی، مفہوم، عمل اور اہمیت کے بعد لفظ "تقبیل" کے معنی اور اہمیت پر غور کریں۔ تقبیل ایک عربی لفظ ہے جس کا اردو معنی بوس و کنار، چومنا یا بوسہ بازی ہے۔ عام طور پر یہ ایران، عراق اور عرب ممالک کی ثقافت ہے۔ ہندوستان میں اس کو مقبولیت حاصل نہ ہو سکی کیونکہ اس کی اہمیت اور فضیلت سے ہم آشنا ہی نہیں۔ معاشرے کی ثقافت میں مقام حاصل نہ کر سکی۔ اس بات کو زور دے کر لکھنا ضروری ہے کہ اگر کتب اربعہ کا مطالعہ کیا ہوتا تو اس عمل کی فضیلت و اہمیت سے آشنائی ہوتی اور عمل میں بھی نظر آتا۔ قارئین کرام غور کریں۔ ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمھارے لیے ایک نور ہے جس سے تم دنیا میں پہچانے جاتے ہو جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اس کی پیشانی کو جو مقام نور ہے بوسہ دے۔ ایسا کرنا بدعت میں شمار نہ ہوگا۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا "اگر کوئی اپنے نسبتی رشتہ دار کے چہرہ یا ہاتھ پر بوسہ دے تو مضائقہ نہیں اور بھائی کے رخسار پر اور رشتہ دار کے دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دینا چاہیے۔ زوجہ اور طفل صغیر پر بوسہ دینا چاہیے۔ (اصول کافی، جلد 4، صفحہ 95)۔ لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ نہ بوسہ کسی کو دیا جائے کسی کے سر کو نہ ہاتھ کو سوائے دستٍ رسول (ص) یا جس کو رسول اکرمؐ نے چاہا ہو (یعنی وصی رسولؐ) جس طرح سے سلام و دعا میں سلامتی، امن، محبت، شفقت، حفظ، امان، کامیابی و کامرانی ہے اسی طرح مصافحہ، معانقہ اور تقبیل میں کثیر خیر، آفیت اور نجات ہے کیونکہ یہ خوشنودی اور رضائے الٰہی ہے۔ ہمارا معاشرہ طبقوں میں تقسیم ہے۔ کیا یہ کہنا قابل قبول ہوگا کہ وارث رسول (ص) ان عمل کی جانب معاشرے کو راغب کریں۔ یہ عمل محمد مصطفٰی (ص) ہے اور رضائے الٰہی بھی۔ اے پروردگار عالم! ہملوگوں کو مندرجہ بالا عمل کو انجام دینے کی توفیق عطاء فرما! آمین!!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .