۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
دعا

حوزہ/ سورہ بقرہ کی آیت 186 میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ «وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنیّ‌ِ فَإِنیّ‌ِ قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ» اور جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سورہ بقرہ کی آیت 186 میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ «وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنیّ‌ِ فَإِنیّ‌ِ قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ» اور جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں «إِذا دَعانِ» کی جانب اشارہ کیا ہے، یعنی جب میرا بندہ مجھے پکارتا ہے تب میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں، خدا وند متعال کی بارگاہ میں دعا کرنے کی دو اہم شرطیں ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ دعا حقیقی معنوں میں دعا ہی ہو، ’’أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ‘‘ یعنی میں دعا کو اس وقت قبول کرتا ہوں جب حقیقی معنوں میں وہ دعا ہو، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ اگر سامنے والا عالم ہے تو اس عالم کا احترام کرو، یعنی یہ احترام اسی وقت انجام پائے جب سامنے والا حقیقی معنوں میں عالم ہو، یعنی عالم با عمل ہو۔

اسی طرح جملہ ’’إِذا دَعانِ‘‘سے بھی پتہ چلتا ہے کہ خدا صرف ان دعاؤں کو ہی قبول کرتا ہے جو حقیقی معنوں میں دعا ہو، یعنی دعا کرنے والے کا دل اور اس کی زبان دونوں ہماہنگ ہوں اور ساتھ میں دعا مانگیں، کیونکہ سچی دعا وہ دعا ہے جو منہ کی زبان، اور قلب و فطرت کی زبان سے مانگی جائے، کیوں کہ اس میں جھوٹ کا امکان نہیں ہوتا۔

دعا کی قبولیت کی دوسری شرط یہ ہے کہ صرف خدا سے دعا کی جائے، جملہ ’’ دَعَانِ ‘‘اسی نکتے کی جانب اشارہ ہے، پس اگر کسی نے اپنی زبان سے تو خدا و پکارا، لیکن اس کا دل خدا کے علاوہ کسی اور سے اور دوسرے اسباب و علل سے امید رکھے ہوئے ہے تو ایسے شخص نے دل سے خدا کو نہیں پکارا اور شرط قبولیت دعا کی رعایت نہیں کی۔

حوالہ: تفیسر المیزان (علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .