تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | متنازع شہریت ترمیمی قانون پرسرکار کا مؤقف کتنا ہی واضح کیوں نارہاہو،اس کے باوجود لوگوں میں خدشات کا پایاجانا اس بات کی دلیل ہے کہ عوام میں اعتماد کا فقدان ہے۔بہتر ہوتاکہ سرکارپہلے اس قانون پر بیدار ی پیداکرتی اور اس کے بعد نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری کیاجاتا۔لیکن جس طرح اس قانون کے نفاذ کا اعلان کیاگیاہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ سرکار عجلت میں ہے لیکن حسّاس بھی ہے ۔عجلت میں اس لئے کیونکہ پارلیمانی انتخابات سرپرہیں اور بی جے پی کی پوری کوشش یہ ہے کہ روایت کے مطابق انتخاب میں تقسیم کی سیاست کو فروغ دیاجائے ۔اس کے لئے شہریت ترمیمی قانون ایک اہم ہتھیار ہے جس سے بیک وقت دونشانے سادھے گئے ہیں ۔پہلا تو یہ کہ سرکار ان غیر مسلموں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہے جن کے پاس ہندوستان کی شہریت نہیں ہے ۔دوسرے یہ کہ سرکار مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرکے ہندوئوں کے ووٹوں کو متحد کرنا چاہتی ہے ،جیساکہ وہ مختلف اقدامات کے ذریعہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے ۔حسّاس باایں معنٰی کہ انتخابات سے پہلے سرکارکسی بھی علاقے میں احتجاج نہیں چاہتی ۔یہ الگ بات کہ اگر اس قانون کے خلاف مسلمان ایک بارپھر احتجاج شروع کرتے ہیں تو اس کا پورا فائدہ بی جے پی کو پہونچے گا،شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا دانشور طبقہ اس قانون کی مذمت تو کررہاہے لیکن احتجاج سے گریزاں ہے ۔اس کو معلوم ہے کہ پارلیمانی انتخاب سے ٹھیک پہلے اس قانون کے نفاذ کا اعلان ووٹوں کی تقسیم کی ایک کوشش ہے ،اس لئے ان کے درمیان مزاحمت کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
دسمبر 2019 میں جب سی اے اے کو قانونی شکل دی جارہی تھی ،اس وقت اس قانون کے خلاف پورے ہندوستان میں احتجاج شروع ہوئے تھے۔خاص طورپر شاہین باغ میں خواتین نے سرکار کے اس فیصلے کے خلاف تاریخی احتجاج کیاتھا،جس کا خوف آج تک سرکار محسوس کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب اس قانون کے نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری ہوااس وقت شاہین باغ سمیت ہندوستان کےتمام مسلم علاقوں میں حفاظتی دستوں کی تعیناتی بڑھادی گئی تھی ۔اگر سرکار اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتی ہے تو پھر مسلم علاقوں میں سیکورٹی فورسیز کے گشت کا جواز کیاہے؟کیا اس قانون پر تنہا مسلمانوں کو اعتراض ہے ؟یا پھر سکیورٹی فورسیز کے گشت کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا مقصود تھاتاکہ وہ کسی بھی طرح کی مزاحمت اور احتجاج سے باز رہیں ۔جس وقت شہریت ترمیمی قانون کے مسودے پر ایوان میں بحث ہورہی تھی اس وقت وزیر داخلہ امت شاہ نے کہاتھاکہ اس قانون سے کسی کی شہریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور نہ کسی شہری سے کوئی دستاویز طلب کیاجائے گا۔حزب اختلاف نے ایوان میں اس قانون پر بحث کا مطالبہ کیاتھااس وقت امیت شاہ نے پورے شدومد کے ساتھ اس قانون کے متعلق وضاحت کی تھی ،لیکن خدشات اور اندیشے اب تک برقرار ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ مودی حکومت پر مسلمانوں کا عدم اعتماد ہے ۔کیونکہ موجودہ حکومت میں جس طرح ’اسلاموفوبیا‘ کو ہوادی گئی اور مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے اکسایاگیا ،اس نے مسلمانوں میں عدم اعتمادی کو فروغ دیاہے ۔اس کے بعد ہندوستان کے گوشہ و کنار میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کو جنم دینے میںبی جےپی کے لیڈر بھی شرپسندوں سے پیچھے نہیں رہے ۔اس منافرانہ ماحول کی بناپر کئی علاقوں میں تشدد کے واقعات رونماہوئے جس میں حکومت اور انتظامیہ نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کاروائی کی ،جس نے مسلمانوں کے سوء ظن میں مزید اضافہ کیا۔حزب اختلاف نے اس قانون کے نوٹیفکیشن پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ یہ انتخاب میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے ،جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ کسی ایک جماعت کے سیاسی فائدے کے لئے کسی بھی طرح کے جذباتی اقدام سے پرہیز کریں ۔کیونکہ کوئی بھی جماعت خواہ وہ کتنا ہی سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہو،مسلمانوں کی طرف دار نہیں ہے ۔ان کا مقصد کسی بھی طرح اقتدار کا حصول ہے جس کے لئے وہ ہمیشہ مسلمانوں کو ’بلی کا بکرا‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اب وزارت داخلہ کے وضاحتی نوٹ کی طرف آتے ہیں ،جو پی آئی بی کی ویب سائٹ پر نشر کیاگیاتھالیکن نامعلوم وجوہات کی بناپر اس نوٹ کو بھی ہٹادیاگیاہے ۔اس وضاحتی نوٹ سے حکومت کی نیک نیتی ظاہر ہورہی تھی اور ہزار ہا خدشات اور اندیشوں کے باوجود مسلمان اس وضاحتی بیان کا خیرمقدم کررہے تھے لیکن اچانک ویب سائٹ نے اس وضاحتی نوٹ کو ہٹالیا،جس سے بدگمانی میں مزید اضافہ ہوگا۔اس وضاحتی بیان میں کہاگیاتھاکہ شہریت ترمیمی قانون سے ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت متاثر نہیں ہوگی ۔اس لئے ہندوستانی مسلمانوں کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہےکیونکہ سی اے اے میں ان کی شہریت کو متاثر کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیاہے اوراس کا موجودہ 18 کروڑ مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جنہیں ہندوئوں کے برابر حقوق حاصل ہیں ۔اس قانون کے بعد کسی بھی ہندوستانی شہری کو شہریت ثابت کرنے کے لئے کوئی دستاویز پیش کرنے کے لئے نہیں کہاجائے گا۔یہ وضاحتی نوٹ کا لب لباب ہے جو سرکار کا ایک مثبت قدم تھا۔لیکن اب یہ نوٹ پی آئی بی کی ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے جسے 12مارچ منگل کی شام کو نشرکیاگیاتھا۔واضح رہے کہ مسلمان شہریت ترمیمی قانون پر زیادہ فکرمند نہیں ہیں لیکن جب سی اے اے کو این آرسی سے جوڑاجائےگا تو مسلمانوں کے لئے مشکلیں پیداہوں گی ۔بلکہ دیگر طبقات بھی مشکلات سے دوچار ہوں گےجس کا مشاہدہ ہم آسام میں کرچکے ہیں ۔آسام میں جب این آرسی کا عمل مکمل ہوا تو تقریباً19 لاکھ افراد کو شہریت کے دائرے سے خارج کردیاگیاتھا،جس پر کافی واویلا مچا تھا۔جبکہ سرکار فی الوقت یہ کہہ رہی ہے کہ سی اے اے کا این آرسی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن حزب اختلاف اور مشوش طبقات ان کے اس دعوے پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ان کاکہناہے کہ سی اے اے این آرسی کی راہ میں پہلا قدم ہے ۔اس کے بعد پورے ملک میں این پی آر نافذکرنے کے لئے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ملک بھر میں این آرسی کے بعد غیر مسلموں کی شہریت کا تحفظ سی اے اے کے ذریعہ کیاجائے گالیکن جو مسلمان شرائط کو پورا نہیں کرسکیں گے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنا ہوگی ،جس میں سی اے اے ان کی کوئی مدد نہیں کرے گاکیونکہ نیا شہریت ترمیمی قانون فقط غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرتاہے ۔ان خدشات کا اظہار بلاتفریق مذہب و مسلک کیاجارہاہے جس میں دانشور حضرات اور ملک کے معتمد سیاسی لیڈربھی شامل ہیں ۔وزارت داخلہ کا الگ سے وضاحتی بیان جاری کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں مسلمانوں کے درمیان موجود اندیشوں اور خدشات کا بخوبی علم تھا،اس لئے یہ نوٹ جاری کرنا پڑا۔ مسلمان وزارت داخلہ کے بیان پر اعتبار کرسکتے ہیں لیکن مودی حکومت ،جو وعدہ کرکے مکرنے میں ماہر ہے ،اس کی یہ روش تذبذب کو ختم نہیں ہونے دے گی۔اس پر پی آئی بی کی سائٹ سے اس نوٹ کا ہٹالیاجانا مزید اندیشوں کو جنم دے رہاہے۔
اس قانون کے نفاذ کی راہ میں کتنی مشکلیں پیش آتی ہیں یہ تو آئندہ دیکھاجائے گاکیونکہ فی الوقت تمام جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔سرکار کے پاس بھی ابھی سی اے اے کے لئے فرصت نہیں ہے ۔اس قانون کا نوٹیفکیشن سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے جاری کیاگیاہے ،جس میں وزیر اعظم مودی ،امیت شاہ سمیت یوگی آدتیہ ناتھ کسی بھی طرح کی غلطی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ۔اس کے علاوہ رام مندر کے افتتاح کو سی اے اے کے ساتھ جوڑاجائے گا تاکہ مسلمانوں کے خلاف ماحو ل سازی کرکے ہندوئوں کی آراء کو متحد کیاجاسکے ۔اس پورے منظرنامے میں سیکولر جماعتیں مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرنا چاہیں گی ،لیکن مسلمانوں کے پاس کانگریس کے علاوہ کوئی بہتر متبادل نظر نہیں آرہاہے ۔رہی مسلم قیادت کی بات تو اس سے کسی بھی طرح کی توقع رکھنا فضول ہے ،اس لئے بہترہوگا کہ مسلمان اپنے مستقبل کا فیصلہ انتہائی غوروفکر کے ساتھ کریں ۔کیونکہ جس قوم کے پاس قیادت کا فقدان ہوتاہے اس کا مستقبل روشن نہیں ہوتا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔