حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پانچویں حضرت امام رضا (ع ) عالمی کانگریس کے سیکرٹری حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید سعید رضا عاملی نے اپنے خطاب میں تمام مجتہدین اور دانشوروں کا خصوصاً رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس عالمی کانگریس کی بنیاد رکھی، اسی طرح حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس کانگریس کی سرپرستی کے فرائض انجام دیئے۔
حجت الاسلام والمسلمین عاملی نے عصری دنیا کے سب سے اہم چیلنج یعنی ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کانگریس کا محور؛ عدل و انصاف کے قیام کے لئے امام رضا(ع) کا تہذیبی نقطۂ نظر قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ در حققیت تمام حقائق بشمول توحید،نبوت اور قیامت کی بنیاد عدالت پر ہے اور خداوند متعال نے جو کچھ بھی اس جہان اور انسان کے لئے بعنوان اشرف المخلوقات تدبیر کیا ہے سب کی بنیاد عدل وانصاف پر رکھی ہے۔ عدل وانصاف؛ اسلامی تعلیمات کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے۔
اسلامک آرٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے رکن جناب ڈاکٹر حسن بلخاری نے آستانہ نیوز کے نمائندے سے گفتگو کے دوران کہا کہ خداوند متعال سورہ حدید میں ارشاد فرماتا ہے:’’ لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتابَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ عدل و انصاف قائم کریں، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم اور بنیادی عنصر عدل وانصاف کا قیام اور ظلم کی نفی ہے۔
پانچویں عالمی کانگریس کی اختتامی تقریب سے آستان قدس رضوی کے علمی و ثقافتی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر عبد الحمید طالبی نے خطاب کرتے ہوئے کہ اس عالمی کانگریس کو ۱۹۸۳ سے ۱۹۹۳ کے عرصے میں چار بار منعقد کیا گیا اور۳۰ سال کے وقفے کے بعد پانچویں کانگریس کا انعقاد کیا گیا ہے، مگر اب یہ طے پایا ہے کہ اس کانگریس کو ہر دو سال میں ایک بار منعقد کیا جائے گا اور آئندہ کی سات کانگریسوں کے انعقاد کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی جا چکی ہے۔
انہوں نے مستقبل میں منعقد کی جانے والی کانفرنسوں کے اہم اہداف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تہذیبی افکار کا استحکام، اسلامی استقامت کی ثقافت کو تقویت دینا، امام رضا(ع) کے افکار کا از سر نو مطالعہ، عالمی سطح پر روابط قائم کرنا، عدل و انصاف کے قیام کے بارے میں افہام و تفہیم پیدا کرنا جیسے کرامت و وقار، امتیازی سلوک کا دنیا میں خاتمہ، ثقافتی، سماجی، تعلیمی،تہذیبی، اخلاقی اور علمی مسائل کے حل لئے کوشش کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی کے کانگریس کے نام پر ویڈیو پیغام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رہبرِ انقلاب نے فرمایا ہے کہ امام رضا (ع) کو دنیا بھر میں متعارف کرانا ہماری اہم زمہ داری ہے۔
پانچویں حضرت امام رضا (ع ) عالمی کانگریس کی اختتامی تقریب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حجت الاسلام سید ابراہیم رئیسی نے خصوصی خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں شاید ہی کوئی عدل و انصاف کے نفاذ کا مخالف ہو، لیکن اہم مسئلہ معاشرے میں عدل و انصاف کے نفاذ کے لئے معیار کا مسئلہ ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ قانون بھی عدل وانصاف کو معاشرے میں نافذ کرنے کا معیار بن سکتا ہے، لیکن جو عین عدل و عدالت ہے وہ آئمہ طاہرین (ع) اور امام رضا(ع) کا طرز عمل ہے ۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ دینی تعلیمات میں توحید کے بعد جتنی زیادہ تاکید عدل و انصاف کے قیام پر ہوئی ہے کسی بھی چیز پر نہیں کی گئی، کہا کہ عدل و انصاف بشمول نبوت، امامت اور قیامت سے لے کر معاشرے کے تمام پہلوؤں جیسے معاشی، سماجی، سیاسی، جنسیتی، انفرادی اور آفاقی پہلوؤں سے مربوط ہے اور عدل وانصاف کے عوامی اور سماجی میدان میں مختلف مراتب ہیں۔
حجت الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری بحث اس بات پر ہے کہ سماجی میدان میں انصاف کے نفاذ کے لئے کیا کرنا چاہئے؟بشریت ؛عدل و انصاف کے نفاذ کی منتظر ہے اس لئے عدالت کو کس طرح سے نافذ کیا جائے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر رئیسی نے کہا کہ انصاف کرنے والے اور انصاف کے خواہاں افراد میں فرق ہے، کچھ افراد انصاف پسند ہوتے ہیں لیکن انف کے نفاذ کےلئے کھڑے نہیں ہوتے،لیکن ہمارے آئمہ معصومین(ع) بشمول امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) اور امام رضا(ع) کمال عدل کی منزل پر فائز بھی تھے اور عدل وانصاف کے نفاذ کے لئے جانفشانی کی اور میدان میں بھی آئے اور سب کا طرز عمل ایک تھا۔
انہوں نے غزہ میں ڈھائے جانے والے مظالم اور جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں غیر منصفانہ نظام پایا جاتا ہے، امریکہ سمیت مغربی حکومتیں ان جرائم کی حامی ہیں اور انسانی حقوق کے دعویدار اس ظلم و بربریت اور نسل کشی پر خاموش تماشائی ہیں۔
پانچویں حضرت امام رضا (ع ) عالمی کانگریس کے اختتام پر ’’مصحف مشہد رضوی‘‘ جو کہ پہلی صدی ہجری کا مکمل ایڈیشن ہے اس کا ایک نسخہ حرم امام رضا(ع) کے متولی کی جانب سے ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کو تحفے کے طور پر پیش کیا گیا۔
واضح رہے کہ مصحف مشہد رضوی۲۵۲ صفحات پر مشتمل ہے جس میں موجودہ قرآن کا ۹۵ فیصد متن موجود ہے اور اس کا اصلی نسخہ آرگنائزیشن آف لائبریریز، میوزیمز اور آستان قدس رضوی کے دستاویزاتی مرکز میں بحفاظت رکھا گیا ہے۔