۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ یہ آیت ہمیں اللہ سے مسلسل دعا مانگنے اور اس کی پناہ میں رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور ایسے اعمال کرنے چاہئیں جو اللہ کی رضا اور اس کے عذاب سے بچنے کا سبب بنیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ. سورہ آل عمران، آیت ۱۹۲

ترجمہ: پروردگار تو جسے جہنم ميں ڈال دے گا گو يااسے ذليل و رسوا كرديا اور ظالمين كاكوئي مددگار نہيں ہے۔

موضوع:

یہ آیت دعا کی اہمیت، جہنم کی سزا، اور ظالموں کی ناکامی کے موضوعات پر روشنی ڈالتی ہے۔

پس منظر:

سورہ آل عمران مدنی سورہ ہے جس کا مرکزی موضوع اہل کتاب سے مکالمہ، مؤمنین کی ہدایت اور اہل ایمان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے خوف کو بیدار کرنا ہے۔ یہ آیت مؤمنین کی اس دعا کا حصہ ہے جس میں وہ اللہ سے جہنم سے بچنے کی التجا کرتے ہیں۔ اس دعا میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جو شخص جہنم میں جائے گا وہ بے شک دنیا و آخرت میں رسوا ہوگا، اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

تفسیر:

اس آیت میں اللہ سے پناہ مانگی جا رہی ہے کہ وہ ہمیں جہنم سے بچائے۔ مؤمنین اعتراف کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جہنم میں داخل ہوا، تو وہ یقینی طور پر رسوا ہوگا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آخرت میں کامیابی اور عزت صرف اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے۔ دوسری طرف، ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا کیونکہ ان کا انجام برا ہوگا۔

آیت میں "ظالمین" سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے کوئی دنیاوی یا اخروی مددگار نہیں ہوگا۔

نتیجہ:

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مؤمنین کو اپنی زندگی میں اعمال کے انجام کی فکر کرتے ہوئے اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے اور ظالموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ ان کے لیے آخرت میں کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یہ دعا اللہ کے عذاب سے بچنے اور اس کی رحمت کی طرف رجوع کرنے کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ آل عمران

لیبلز