۴ مهر ۱۴۰۳ |۲۱ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 25, 2024
سود بانکی

حوزہ/ شیعہ مراجع کرام کے فتاویٰ کے مطابق، بینک سے قرض لینے کا حکم مختلف حالات اور شرائط پر منحصر ہوتا ہے، اور اس میں سود (ربا) کی نوعیت ایک اہم عامل ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بینک سے قرض لینے اور سود کے حوالے سے شیعہ مراجع کرام کا موقف مختلف فتاویٰ کی صورت میں موجود ہے۔ ذیل میں چند مراجع کرام کے فتاویٰ مع حوالہ جات دیے گئے ہیں:

1. آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی:

سودی قرض لینا اور دینا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص مجبور ہو تو اس کے لیے ایسے قرض کو لینے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ قرض لینے کے وقت سود دینے کی نیت نہ ہو۔

حوالہ: رسالہ توضیح المسائل، مسئلہ نمبر 2831

2. آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای:

ان کے فتوے کے مطابق بھی سود پر مبنی قرض لینا حرام ہے۔ تاہم، اگر کوئی سود کی نیت نہ رکھے اور اصل رقم واپس کرے تو قرض لینا جائز ہوسکتا ہے۔

حوالہ: اجوبة الاستفتاءات، مسئلہ نمبر 1943

3. آیت اللہ العظمیٰ سید محمد سعید الحکیم:

ان کے فتوے کے مطابق، سود پر مبنی قرض مکمل طور پر حرام ہے، اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہے۔

حوالہ: فتاویٰ، باب سود

ہر مرجع کے مخصوص حالات کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، اس لیے مزید تفصیل کے لیے اپنے مرجع تقلید کے دفتر یا ان کی ویب سائٹ پر مراجعہ کریں۔

4. آیت اللہ العظمیٰ شیخ بشیر حسین نجفی:

ان کے فتوے کے مطابق، سود پر مبنی قرض لینا حرام ہے۔ سود کی کوئی بھی صورت، چاہے وہ بینک سے ہو یا کسی فرد سے، اسلام میں ممنوع ہے۔ ان کے نزدیک سود لینا یا دینا دونوں ناجائز ہیں۔

حوالہ: توضیح المسائل

تبصرہ ارسال

You are replying to: .