تحریر: نواب علی اختر
ایسے وقت جب اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر بضد ہے اور امریکہ، برطانیہ سمیت انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے تمام اتحادی بلواسطہ طور پر بے گناہوں کے قتل کی حمایت کر رہے ہیں، منگل کی شب اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں کا آسمان روشن ہو گیا، جب ایرانی میزائلوں کا ایک جتھا اسرائیلی دفاع کو توڑنے کی کوشش کرتا نظر آیا، جبکہ صہیونی دفاعی نظام نے اپنی جانب آتے میزائلوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ اپریل میں میزائل داغے جانے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ جب ایران نے براہِ راست اسرائیل پر حملہ کیا۔ اپریل میں پیش آنے والے واقعات کے بعد سے اسرائیل کچھ ماہ سے ایران کو مسلسل اُکسا رہا تھا اور منگل کو تہران نے وہی کیا۔
جولائی میں حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد لبنان میں جنگ اور گزشتہ ہفتے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت سے مشرق وسطی کے تمام مزاحمتی گروپوں میں مایوسی قدرتی تھی مگر ایران نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ تہران کے زیر قیادت مشرق وسطیٰ میں متحرک مزاحمتی گروپوں میں حزب اللہ کو سب سے زیادہ طاقتور کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کے سربراہ کو شہید کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ مزاحمتی تنظیموں کا یہ محور ممکنہ خاتمے کی جانب گامزن ہے لیکن حالیہ میزائل حملوں نے واضح کر دیا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے خیال میں ’اسٹریٹجک بنیادوں‘ پر صبر کرنے کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب جواب دینے کا وقت ہے۔
حالیہ کارروائیوں نے مشرق وسطیٰ کو علاقائی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسرائیل نے تمام ریڈ لائنز عبور کر لی ہیں جبکہ جنگ بندی کے تمام منصوبوں کو بھی خارج از الامکان قرار دے دیا ہے۔ طاقت کے نشے میں چور اور اپنے مغربی سہولت کاروں کی سرپرستی کے بھروسے پر وہ اس کے انتہائی برے رویے کی پردہ پوشی کریں گے، اسرائیل کو لگتا ہے کہ اسے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ ایران کی اسٹرائیک کے بعد بیان بازی کے سلسلے میں تیزی آئی ہے اور اسرائیلی رہنماؤں نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ جب کہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسی کوئی بھی کارروائی بڑی غلطی ہوگی۔
اسرائیل ہمیشہ سے ہی فلسطین سمیت شام اور لبنان کے علاقوں میں در اندازی اور جارحیت انجام دیتا آیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اسرائیلی فوجیں بیروت میں دندناتی پھرتی تھیں لیکن یہی حزب اللہ تھی جس نے اسرائیل کو بیروت اور لبنان سے باہر پھینکا اور ذلت و رسوائی سے دو چار کیا۔ باوجود اس کے اسرائیل نے 2006 میں ایک ناکام کوشش کی لیکن 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کو دھول چٹا کر چاروں شانے چت کر دیا تھا اور اسرائیلی افواج کو واپس بھاگنا پڑا تھا۔
گزشتہ سال سات اکتوبر سے شروع ہونے والے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے جنوبی لبنان کی 120 کلو میٹر طویل سرحد پر حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کیا کیونکہ قابض ریاست نے غزہ پر بڑے پیمانے پر جنگ مسلط کر دی تھی اور غزہ میں معصوم انسانوں کا قتل عام کیا، یعنی فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی۔ حزب اللہ کا مقصد یہ تھا کہ صہیونی فوج کی طاقت کو تقسیم کر دے اور غزہ پر جاری جارحیت کی شدت کو کم کیا جائے۔ حالیہ دنوں کے واقعات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیلی فوج حزب اللہ کے بچھائے ہوئے جال میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ اسرائیل کی پوری ایک بریگیڈ جنوبی لبنان کی سرحد پر لگائی جا چکی ہے، لبنان کے علاقوں پر بمباری کی جا رہی ہے اور لبنان سمیت حزب اللہ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے تاکہ حزب اللہ کو جنوبی لبنان سے شمالی فلسطین میں کارروائیوں سے روک سکے۔
حزب اللہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں شمالی فلسطین کے لاکھوں صہیونی آباد کار بے گھر ہو چکے ہیں، جن کو دوبارہ واپس لا کر آباد کرنا بھی اسرائیل اور اس کی فوج کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ایک بھی صہیونی آبادکار کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں حزب اللہ اور لبنانی شہریوں کے خلاف اسرائیل کے حملوں میں تیزی پیجرز دہشت گردی کے بعد حزب اللہ کے کمانڈر ابراہیم عقیل کی شہادت اور پھر بیروت اور جنوبی لبنان میں شہری آبادیوں پر بڑے پیمانے پر بمباری ہے لیکن ان سارے واقعات میں اگر دیکھا جائے تو اسرائیلی فوج نہ تو لبنان کے لوگوں کے حوصلے کو پست کر سکی ہے اور نہ ہی حزب اللہ کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کر سکی ہے، ماسوائے قتل و غارت گری کے۔
دوسری جانب حزب اللہ ہے کہ جس نے پیجر حملوں، ابراہیم عقیل اور اپنے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کیا اور اگلے ہی دن مقبوضہ فلسطین کے علاقے حیفا کو اپنے درجنوں میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں میں حزب اللہ نے رامات ڈیوڈ فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا اور ساتھ ہی حیفا میں موجود ملٹری ٹیکنالوجی کے مرکز اور جنگی ساز و سامان بنانے والی ایک بہت بڑی فیکٹری کو میزائلوں کا نشانہ بنا کر مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
حزب اللہ کی ان کاروائیوں کے بعد پورے مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاست کے عہدیداروں پر لرزا طاری ہو گیا، یہاں تک کہ تمام بڑے صہیونی سوشل میڈیا اکاونٹس نے جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلانے کی بہت کوشش کی لیکن حزب اللہ کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی ویڈیوز نے منظر عام پر آ کر اسرائیل کے تمام تر بھرم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ حیفا جلتا رہا، کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ اسرائیل کا نام نہاد آئرن ڈوم بری طرح ناکام ہو گیا۔ میزائل روکنے کے لئے فائر کئے گئے میزائل خالی گھروں میں جا گرے کہ جہاں سے پہلے ہی صہیونی آبادکار گھر چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام تر مشکل حالات اور قربانیوں کے باوجود حزب اللہ کی پالیسی میں کسی قسم کی کوئی لچک یا گھبراہٹ دیکھنے کو نہیں ملی ہے بلکہ کمانڈروں کی شہادت سے حزب اللہ کے جوانوں کے حوصلے مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ ان سب باتوں سے اہم بات یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی صلاحیت دکھا دی ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے اندر 60 کلو میٹر تک حملہ کر کے دشمن کے فوجی ہوائی اڈوں کو ناکارہ کر سکتی ہے۔ لبنان پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں 700 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے اور دو ہزار کے قریب زخمی ہوئے لیکن اگلے ہی روز حزب اللہ نے شمالی فلسطینی علاقوں سمیت تل ابیب کو اپنے میزائلوں کا نشانہ بنایا یعنی اب 60 کلو میٹر سے آگے بڑھ کر 120 کلو میٹر کے فاصلے پر صہیونی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔