تحریر: نعمت شگری
حوزہ نیوز ایجنسی| امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کا لعل جناب قاسم علیہ السّلام کمسنی کے باوجود، خدا کی وحدانیت، نبوت اور قیامت پر کامل یقین، وقت کے امام کی معرفت، دشمن شناسی، شجاعت و بہادری جیسی اعلیٰ ترین صفات و کمالات سے مزین اور نوجوانوں کے لیے اسوۂ کامل شخصیت کے مالک تھے؛ حق کے دفاع میں وقت کے امام پر جان نچھاور کرنے کے حوالے سے ان کی تڑپ قابلِ تقلید ہے۔
امام حسن المجتبی علیہ السّلام نے تحریکِ کربلا کے لیے خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ سے ایک شجاع بیٹے کو مانگا تھا اور رب العزت نے انہیں جناب قاسم جیسے جری اور بہادر بیٹے سے نوازا جنہوں نے اخلاق و آداب کے اعلیٰ مراتب خود امام وقت سے حاصل کیے اور حضرت عبّاس جیسے بہادر سے بہادری کے فنون سیکھے۔
جناب قاسم علیہ السّلام تین سال کی کم ترین عمر میں اپنے بابا سے جدا ہوگئے اور چچا امام حسین علیہ السّلام کے دست شفقت میں تربیت حاصل کی، امام حسین علیہ السلام اپنی اولاد میں سب سے زیادہ جناب قاسم علیہ السلام کا خیال رکھتے تھے؛ انہیں بابا کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتے تھے اور کربلا کے عظیم کارواں کے لیے تیار کرتے تھے، اسی لیے جناب قاسم شہادت کو سعادت ابدی شمار کرتے ہیں، اور اپنے چچا سے بار بار اجازت طلب کرتے ہیں؛ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ امام عالی مقام نے قاسم علیہ السّلام سے پوچھا بیٹا قاسم آپ کے نزدیک موت کیا ہے؟ جناب قاسم نے تاریخی جواب دیا اور پوری دنیا کے نوجوانوں کے لیے درس دیا کہ شہادت کی موت سے ڈرنے کے بجائے اس سے گلے لگانے پر فخر محسوس کریں۔
جناب قاسم علیہ السّلام نے فرمایا: میں موت کو شہد سے بھی زیادہ شیریں محسوس کرتا ہوں۔
تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو جناب قاسم ابن امام حسن علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت 7 شعبان المعظم 47 ہجری کو ہوئی، آپ کے والد گرامی امام حسن المجتبی، جبکہ والدہ کا نام جناب ام فروہ تھا، خاندان نبوت و امامت میں تربیت پانے والا یہ نوجوان ایک باعمل اور پاکیزہ کردار کے مالک تھے، علم و معرفت، حق شناسی اور دین فہمی اپنے والد گرامی قدر اور چچا سے حاصل کی جو خود جوانان جنت کے سردار ہیں، اسی لیے یہ کمسن نوجوان صرف 13 سال کی عمر میں تحریکِ کربلا میں ہزاروں کے لشکر پر بھاری نظر آتے ہیں اور بڑی دلیری اور بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماتے ہیں اور قیامت تک کی نوجوان نسل کو درس دے جاتے ہیں کہ جب کبھی دین کے لیے ضرورت ہو اور حق کے دفاع کی بات ہو تو کبھی سمجھوتہ مت کرنا اور کمسنی کا بہانہ بنا کر پیچھے نہیں ہٹنا، بلکہ جان دینا پڑے تو اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کریں۔
آپ کا تبصرہ