حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران/ ڈاکٹر مسعود جان بزرگی، جو کہ پژوهشگاه حوزه و دانشگاه کے رکن ہیں، نے بین الاقوامی قرآن نمائش میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدا سے جڑنے اور حقیقی روحانیت کو اپنانے کے بغیر انسانی ذہنی مسائل کا مکمل علاج ممکن نہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ دنیا کے بڑے ماہرینِ نفسیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ جب تک انسانی ذات کو صحیح طریقے سے پہچانا نہ جائے، کوئی بھی علاجی ماڈل مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔ جیسے کہ میڈیکل سائنس میں بھی، جب تک جسم کی ساخت اور اس کے اصولوں کو نہ سمجھا جائے، دی جانے والی دوا محض وقتی سکون دے سکتی ہے، لیکن مکمل شفا نہیں دے سکتی۔
ڈاکٹر جان بزرگی نے کہا کہ اسی وجہ سے ہم ایک ایسے ماڈل کی تلاش میں تھے جو سب سے پہلے انسانی ذات کو صحیح طریقے سے پہچانے اور اسے واضح کرے۔ لیکن چونکہ انسان خود اپنا موضوعِ مطالعہ ہے، وہ اپنے وجود کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا، کیونکہ وہ خود الجھن کا شکار ہے۔ صرف ایک کامل انسان ہی صحیح معنوں میں ایک صحت مند روح کی نشاندہی کر سکتا ہے، اور ایسے کامل انسان صرف انبیاء اور ائمہ ہی ہو سکتے ہیں، جو انسان کی حقیقت کو واضح کر سکتے ہیں اور خود بھی شفا کا ذریعہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم خدا کو بھول جائیں تو دراصل ہم خود کو بھول جاتے ہیں۔ یعنی خدا کی معرفت، خودشناسی کی پہلی شرط ہے۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم نے ایک ایسا روحانی علاجی ماڈل پیش کیا جو انسان کو اپنے نفس کی درست شناخت میں مدد دیتا ہے۔
ڈاکٹر جان بزرگی کا کہنا تھا کہ عملی طور پر بھی یہ ماڈل ذہنی مسائل کے حل میں مؤثر ثابت ہوا ہے اور اس سے لوگوں کو حقیقی فائدہ پہنچا ہے۔ انہوں نے قرآن نمائش میں مشاورتی سیشنز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہاں عوام کو اپنی مشکلات پر ماہرین سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا، جو ایک مثبت قدم ہے۔ تاہم، یہ مشاورت ایک ابتدائی رہنمائی ہے، مکمل علاج نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی بڑی تعداد کا اس سیشن میں شرکت کرنا اس کی افادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو روحانی اور دینی اصول آزما کر خود ان کے اثرات دیکھنے چاہئیں، اور اگر یہ مؤثر ثابت ہوں تو ان پر عمل کرنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ