حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام کا ظاہری طور پر حاضر ہونا ہی ان کی برکات کا واحد ذریعہ نہیں بلکہ ان کی غیبت کے باوجود بھی کائنات ان کے فیض سے بہرہ مند ہے۔ شیعہ تعلیمات کی روشنی میں، امام صرف ایک پیشوا نہیں بلکہ تمام موجوداتِ عالم کے لیے خدا کے فیض کا ذریعہ اور مدار عالمِ ہستی ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے جب پوچھا گیا کہ کیا زمین بغیر امام کے باقی رہ سکتی ہے؟ تو فرمایا:
«لَوْ بَقِیَتِ الْأَرْضُ بِغَیْرِ إِمَامٍ لَسَاخَتْ»
اگر زمین بغیر امام ہو، تو زمین دھنس جائے۔ (الکافی، ج ۱، ص ۱۷۹)
امام، آسمانی نظام کے نظم و نسق کا محور ہے۔ اس کے وجود کے وسیلے سے بارانِ رحمت نازل ہوتی ہے، زمین و آسمان کو استقامت حاصل ہے اور دنیا میں برکات الٰہی جاری و ساری ہے، زیارت جامعہ کبیرہ میں یہ حقیقت اس طرح بیان ہوئی ہے:
«بِکُمْ فَتَحَ اللّهُ وَبِکُمْ یخْتِمْ وَبِکُمْ ینَزِّلُ الغَیثَ وَبِکُمْ یمسِکُ السَّماءَ...»
اللہ نے آپ کے وسیلے سے عالم کو آغاز بخشا، آپ کے ذریعے اسے ختم کرے گا، آپ ہی کے ذریعے بارانِ رحمت نازل ہوتی ہے اور آپ کے ذریعے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکے رکھتا ہے۔
یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امام کا وجود، ظاہری ہو یا غائب، کائنات میں زندگی کی ضمانت ہے۔
امام مهدی علیہ السلام نے خود اپنی غیبت میں امت کی رہنمائی اور برکت کی کیفیت کو سورج سے تشبیہ دی جو بادلوں میں چھپ جانے کے باوجود روشنی اور حرارت عطا کرتا ہے:
«وَ أَمَّا وَجْهُ الاِنْتِفَاعِ بِی فِی غَیْبَتِی فَکَالاِنْتِفَاعِ بِالشَّمْسِ إِذَا غَیَّبَتْهَا عَنِ الْأَبْصَارِ السَّحَابُ...»
میری غیبت میں مجھ سے استفادہ کا طریقہ ویسا ہی ہے جیسے سورج سے استفادہ جب وہ بادلوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔
امام علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:
میں اہل زمین کے لیے باعثِ امان ہوں جیسے ستارے اہل آسمان کے لیے امان ہیں۔
پس، امام کا وجود — چاہے وہ غیبت میں ہو — اس عالم کے لیے ایک مسلسل، روحانی اور نظامی فیض ہے، اور یہ فیض قیامت تک جاری رہے گا۔
ماخذ: کتاب "نگینِ آفرینش" (مختصر تبدیلی کے ساتھ)
(یہ سلسلہ جاری ہے...)









آپ کا تبصرہ