حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ماہرین اور ثقافتی شخصیات کا کہنا ہے کہ عید غدیر کو شایانِ شان طریقے سے منانے اور ثقافتِ غدیر کے فروغ کے لیے اجتماعی عزم و ارادہ ضروری ہے۔ ان کے مطابق، دینی شعائر کی تعظیم اسی وقت ممکن ہے جب عوامی شرکت پر مبنی اور باوقار تقریبات منعقد کی جائیں۔
امام صادقؑ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر مهدی اسلامی کے مطابق، سالوں تک غیر ملکی میڈیا یہ تاثر دیتا رہا کہ شیعہ انقلابی تحریک محدود ہے، تاہم اربعین، نیمہ شعبان اور جشن غدیر جیسے اجتماعات نے میڈیا کے ذریعے شیعہ عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی مذہبی رسومات کو فروغ دینا چاہیے جو عوامی سطح پر منعقد ہوں اور جس میں لوگوں کی وسیع شرکت ہو۔
دوسری جانب ثقافتی تجزیہ نگار جعفر حسن خانی نے اس تصور کو رد کیا کہ تشیع صرف سوگ اور غم منانے پر زور دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "جشن غدیر" نہ صرف اس اعتراض کا جواب ہے بلکہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ، ایک شعوری اور فقہی بنیادوں پر مبنی خوشی کا اظہار ہے۔
حجت الاسلام محمد رضا عابدینی نے کہا کہ کچھ افراد جشن غدیر کے اجتماعی جشن پر اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ جیسے نماز جمعہ مقامی نمازوں کو ختم نہیں کرتی، ایسے ہی اجتماعی جشن انفرادی تقریبات کی نفی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام بے مثال ہے اور رہبر انقلاب کی جانب سے اس کی تحسین بھی ہوچکی ہے۔
حجت الاسلام کمال خدادادہ نے کہا کہ مختلف ادارے اور صوبائی مراکز جلوس اور جشن غدیر کو عوامی انداز میں منعقد کر رہے ہیں، جن میں بچے، نوجوان، بزرگ اور حتیٰ کہ فلسطینی عوام کے حامی بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان تقریبات کو عظیم ثقافتی مواقع میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔









آپ کا تبصرہ