منگل 12 اگست 2025 - 22:50
آذربائیجان: قفقاز میں تزویراتی حیثیت، مذہبی بیداری اور بدلتی طاقت کی بساط

حوزہ/ زنگزور کوریڈور کی کشیدگی، اسرائیل-آذربائیجان قربت، پان ترک ازم کا ابھار، ترکیہ کی مداخلت، روس کی کمزوری، اور آذربائیجان میں ابھرتی ہوئی شیعہ اسلامی مزاحمتی تحریک، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو قفقاز میں ایک بڑے تغیر کی سمت اشارہ کر رہے ہیں۔

تحقیق و تحریر: سید شجاعت علی کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی | قفقاز کی وادیوں اور پہاڑوں کے درمیان واقع آذربائیجان اس وقت عالمی سیاست کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ مشرق و مغرب کے درمیان یہ خطہ تیل، گیس، تجارتی راستوں اور تہذیبی تنوع کی وجہ سے نہ صرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی کشمکش کا مرکز بھی ہے۔ حالیہ برسوں میں زنگزور کوریڈور، اسرائیل سے بڑھتے تعلقات، ترک پان ازم کی ترویج، اور ایران سمیت بڑے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ کشیدگی نے آذربائیجان کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں آذربائیجان کی حیثیت کو صرف موجودہ سیاسی واقعات سے نہیں بلکہ اس خطے سے متعلق روایاتِ معصومینؑ کی روشنی میں بھی سمجھنا ضروری ہے۔

آذربائیجان کی قفقاز میں جغرافیائی و تہذیبی اہمیت

آذربائیجان جنوبی قفقاز کا مشرقی ملک ہے، جس کی سرحدیں ایران، روس، آرمینیا، جارجیا اور بحیرۂ خزر سے ملتی ہیں۔ یہ محلِ وقوع اسے تین بڑے جغرافیائی بلاکس — مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، اور یورپ — کے سنگم پر لے آتا ہے۔

تہذیبی لحاظ سے یہ خطہ قدیم ایرانی، اسلامی اور ترک اثرات کا سنگم ہے۔ تزویراتی لحاظ سے یہاں سے گزرنے والے راستے روس، ترکیہ، ایران اور مغرب سب کے لیے اہم ہیں۔ بحیرۂ خزر کی بندرگاہیں اور توانائی کے ذخائر اسے عالمی توانائی کی سیاست میں نمایاں مقام دیتے ہیں۔

زنگزور کوریڈور اور بدلتی بساط

آذربائیجان اور آرمینیا کے بیچ متنازعہ زنگزور کوریڈور نے قفقاز کی طاقتوں کے درمیان ایک نئی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ ایران اسے اپنے جغرافیائی و اقتصادی رابطوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، کیونکہ یہ منصوبہ ترکی اور آذربائیجان کو براہِ راست جوڑ کر ایران کے قفقاز پر اثر کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں:

امریکہ اور نیٹو اس منصوبے کی حمایت کر کے خطے میں ایران کے اثر کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔ ترکیہ اسے "ترک دنیا" کے جغرافیائی اتحاد کی جانب قدم کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے باعث اپنی کمزوری کی وجہ سے قفقاز میں اپنا روایتی کردار کھو رہا ہے۔ یہ تمام عوامل آذربائیجان و ایران کے تعلقات میں تلخی بڑھا رہے ہیں۔

آذربائیجان-اسرائیل قربت اور ایران کی تشویش

آذربائیجان کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے دفاعی تعلقات نے تہران میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اسرائیل، آذربائیجان سے تیل خریدنے کے ساتھ اسے جدید ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے، جبکہ ایران کو خدشہ ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس نیٹ ورک اس کی سرحدوں کے قریب سرگرم ہو سکتا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف جغرافیائی توازن کو بگاڑتے ہیں بلکہ خطے کی نظریاتی کشیدگی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

پان ترک ازم اور ترک نسل پرستی کا ابھار

گزشتہ برسوں میں ترکیہ اور آذربائیجان کے بعض سیاسی حلقوں نے "پان ترک ازم" (Pan-Turkism) کو خطے میں ایک نظریاتی لہر کے طور پر ابھارا ہے۔ اس نظریے کا مقصد وسطی ایشیا سے اناطولیہ تک تمام ترک النسل خطوں کو ایک مشترکہ سیاسی، ثقافتی اور عسکری بلاک میں جوڑنا ہے۔

یہ سوچ آذربائیجان کی شیعہ اسلامی شناخت اور قفقاز کے تاریخی تنوع کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ یہ مذہبی و تہذیبی وحدت کے بجائے نسلی قوم پرستی کو فروغ دیتی ہے۔ اسی لیے ترکوں کے خلاف قیام والی روایات اس ابھرتے رجحان کے مقابل ایک مزاحمتی تناظر فراہم کرتی ہیں۔

آذربائیجان کی جغرافیائی و تہذیبی اہمیت

آذربائیجان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور روسی اثر کے درمیان ایک اسٹریٹجک گیٹ وے ہے۔ بحیرۂ خزر کے توانائی ذخائر، قفقاز کے پہاڑی راستے، اور تجارتی راہداریوں کے مراکز ہونے کی وجہ سے یہ عالمی طاقتوں کے لیے خاص دلچسپی کا مرکز ہے۔

تہذیبی طور پر یہ ایک شیعہ اسلامی تشخص کا حامل ملک ہے، جہاں صدیوں سے عاشورائی ثقافت اور اہل بیتؑ سے وابستگی عوامی شعور کا حصہ رہی ہے۔ آج یہ وابستگی ایک ابھرتی ہوئی شیعہ اسلامی انقلابی تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے، جو فکری طور پر ولایتِ فقیہ اور مزاحمتی بیانیے سے قربت رکھتی ہے۔

روایاتِ معصومینؑ میں آذربائیجان، قفقاز اور ترکوں کے خلاف قیام

1. امام جعفر صادقؑ:

«لأهلِ أذربيجان أمرٌ لا بُدَّ منه، لا بُدَّ أن يَملِكوه، فيَكرَهون ذلك، فإذا وقع ذلك كان أهلُ المشرق والمغرب منه في عجبٍ.»

(بحار الأنوار، ج 52، ص 256)

ترجمہ: آذربائیجان والوں کے لیے ایک ایسا معاملہ ہے جو لازمی پیش آئے گا، لوگ اس سے ناخوش ہوں گے، لیکن جب وہ واقع ہوگا تو مشرق و مغرب کے لوگ حیران رہ جائیں گے۔

2۔ امام جعفر صادقؑ (عظیم تحریک)

تَكُونُ بِأَذْرَبَايْجَانَ حَرَكَةٌ شَدِيدَةٌ...

(مختصر البصائر، ص 113)

ترجمہ: آذربائیجان میں ایک شدید تحریک برپا ہوگی، کوئی اس کا مقابل نہیں کر سکے گا، اور یہ قیام امام مہدیؑ کے ظہور کی تمہید ہوگا۔

3. امام جعفر صادقؑ:

«تخرج من أذربيجان رايةٌ تهزّ المشرق والمغرب، وتمهّد للمهدي.»

(مختصر البصائر، ص 113)

ترجمہ: آذربائیجان سے ایک پرچم اٹھے گا جو مشرق و مغرب کو ہلا دے گا اور امام مہدیؑ کے ظہور کی تمہید بنے گا۔

4. امام علیؑ (قفقاز کے بارے میں):

«ويلٌ لكِ يا قفقاز، ستُفتحين على يدِ قومٍ لا يرحمونكِ، ويكون فيكِ ملحمةٌ عظمى قبلَ قيامِ القائم.»

(تأویل الآیات الظاهرة، ص 337)

ترجمہ: اے قفقاز! تجھ پر افسوس، تجھے ایک ایسی قوم فتح کرے گی جو تجھ پر رحم نہیں کرے گی، اور تیرے اندر قائمؑ کے قیام سے پہلے ایک بڑی جنگ ہوگی۔

5. امام جعفر صادقؑ (ترکوں کے خلاف قیام):

«إذا خرج أهلُ أذربيجان على الترك، كان ذلك مبدأ الفرج.»

(تأویل الآیات الظاهرة، ص 337)

ترجمہ: جب آذربائیجان والے ترکوں کے خلاف قیام کریں گے تو یہ فرج کا آغاز ہوگا۔

حالات کا رخ اور روایات کا افق

زنگزور کوریڈور کی کشیدگی، اسرائیل-آذربائیجان قربت، پان ترک ازم کا ابھار، ترکیہ کی مداخلت، روس کی کمزوری، اور آذربائیجان میں ابھرتی ہوئی شیعہ اسلامی مزاحمتی تحریک — یہ سب ایسے عوامل ہیں جو قفقاز میں ایک بڑے تغیر کی سمت اشارہ کر رہے ہیں۔

اگرچہ روایات کو کسی ایک دور یا واقعے پر محدود کرنا درست نہیں، لیکن یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ خطے کے بدلتے حالات ان احادیث کے مندرجات سے مماثلت رکھتے ہیں، اور یہ تغیرات تاریخ کے ایک اہم موڑ کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha