بدھ 8 اکتوبر 2025 - 13:37
طوفان الاقصی کیوں؟ فلسطینی ڈاکٹر کا بہترین بیان

حوزہ/ منعم نامی فلسطینی ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ ۷ اکتوبر سے قبل خطرے کا احساس صرف خیالی نہیں تھا بلکہ آنکھوں کے سامنے اہلِ فلسطین کی حقوق اور خاص طور پر مسجدِ الاقصی پر خطرہ نمایاں تھا۔ اسی خوف و احساسِ ذمہ داری نے انہیں اور ان جیسے لاکھوں فلسطینیوں کو دل و جان سے لڑنے پر آمادہ کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، منعم نامی فلسطینی ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ ۷ اکتوبر سے قبل خطرے کا احساس صرف خیالی نہیں تھا بلکہ آنکھوں کے سامنے اہلِ فلسطین کی حقوق اور خاص طور پر مسجدِ الاقصی پر خطرہ نمایاں تھا۔ اسی خوف و احساسِ ذمہ داری نے انہیں اور ان جیسے لاکھوں فلسطینیوں کو دل و جان سے لڑنے پر آمادہ کیا۔

ڈاکٹر منعم نے بتایا کہ تقریباً ایک صدی سے فلسطینی قوم غربت، جبراً بے دخلی، قتل، قید و آزار اور بربریت کا سامنا کرتی آئی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں مقبوضہ طاقت اور اس کے حامیوں نے مسألہ فلسطین کو "معمولی" اور عادی روابط کے ذریعے پسِ منظر پشت ڈالنے کی کوشش کی، مگر طوفان الاقصی نے اس فضا کو بدل کر رکھ دیا اور فلسطینی مطالبات کو دوبارہ بین الاقوامی توجہ میں لایا۔

وہ لکھتے ہیں کہ شہید یحییٰ السنوار کی تقاریر (۲۰۱۸ تا ۲۰۲۳) نے واضح راستہ دکھایا: یا تو قابض ریاست بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے، مقبوضہ اراضی سے نکلے، قیدی آزاد کریمے اور ۱۹۶۷ کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہو، یا یہ کہ مزاحمتی قوتوں کے ذریعے اسے تنہا اور غیر مستحکم کر دیا جائے۔ ڈاکٹر منعم کے بقول اہلِ غزہ نے عزت کے ساتھ زندگی کو ترجیح دی اور "ساز باز" کے منصوبوں کو رد کیا، کیونکہ وہ اپنی مقدسات اور وقار سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ڈاکٹر منعم کے مطابق، طوفان الاقصی نے اس جھوٹے دعوے کو بے نقاب کیا کہ قابض دشمن "ناقابلِ شکست" ہے؛ اور غزہ کی مظلومیت نے دو سال میں عالمی شعور میں جگہ بنائی جہاں پہلے انہیں فراموش کر دیا گیا تھا۔ آخر میں وہ کہتے ہیں کہ ۷ اکتوبر اُن کا فریضہ تھا — ایک شرعی اور انسانی اقدام تھا — اور یہ دن فلسطین کی تاریخ میں آزادی تک ایک اہم سنگِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha