حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریک حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا: فلسطین نسل کشی کی جنگ کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کو انجام دے گا۔ تحریک مقاومت کی اولین ترجیح اپنے لوگوں کے خلاف اس مجرمانہ و ظالمانہ جنگ کو روکنا اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران غزہ میں جنگ بندی کے لیے سیاسی مذاکرات کی تازہ ترین پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: حماس مستقل جنگ بندی، صہیونی افواج کا مکمل انخلاء، جنگی علاقوں کی تعمیر نو، قیدیوں کے تبادلے، فلسطینی عوام کی مدد اور محاصرے سے مربوط ہر چیز کے مخصوص مطالبات رکھتی ہے۔
اسماعیل ہنیہ نے مزید کہا: یہ مطالبات صرف تحریک حماس کے ہی نہیں بلکہ ہماری عوام، مقاومت اور فلسطینی قوم کے تمام آزاد لوگوں کے مطالبات ہیں۔
انہوں نے کہا: اسرائیل کی مذاکراتی حکمت عملی علاقائی اور بین الاقوامی طور پر تحریک حماس پر اسرائیل کے نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے پر مبنی ہے جس سے فلسطینی مطالبات متاثر ہوتے ہیں۔
تحریک حماس کے اس رہنما نے کہا: 7 اکتوبر کا حملہ ایک ایسا زلزلہ تھا جس نے صیہونی استعماری منصوبے کی بنیادوں اور اصولوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
انہوں نے کہا: اسرائیل کا غزہ کی پٹی میں مسلسل نویں مہینے سے جنگ جاری رکھنا نہ صرف قابض فوج بلکہ امریکی حکومت اور اس کے اتحادی مغربی استعماری قوتوں کے زیر انتظام ہو رہا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ذاتی طور پر سات گھنٹے تک جاری رہنے والے اسرائیلی وار کونسل کے اجلاس کی صدارت کی۔ جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں اسلامی مقاومت اور تحریک حماس کو تباہ کرنے سمیت یہاں سکیورٹی اور سیاسی حقیقت کو تبدیل کرنے کے لیے اہداف کا تعین کرنا تھا۔