حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ جاودان نے ایک واقعہ نقل کیا جو مرحوم شیخ مرتضی زاہد کی غیر معمولی دیانت اور باریکبینی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے بقول، شیخ زاہد اپنی عمر کے آخری ایام میں جسمانی کمزوری کے باعث خود چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے تھے، اس لیے شاگرد یا مرید انہیں اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا کرتے تھے۔
ایک دن وہ ایک گلی سے گزر رہے تھے جسے “کوچہ شترداران” کہا جاتا تھا۔ راستے میں جس شخص نے انہیں اٹھا رکھا تھا، وہ تھک گیا اور شیخ کو ایک دیوار کے قریب زمین پر بٹھا دیا۔ جیسے ہی ان کا جسم دیوار سے لگا، دیوار سے کچھ مٹی نکل کر زمین پر گر گئی۔
مرحوم شیخ مرتضی زاہد فوراً گھبرا گئے۔ انہوں نے اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب صاحبِ خانہ باہر آئے اور انہیں پہچانا تو تعظیم کے ساتھ کہا: “آقا! یہ گھر تو آپ ہی کا ہے، آپ کیوں پریشان ہیں؟”
لیکن شیخ زاہد نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا: “قیامت ان چیزوں کو نہیں بھولتی! یا تو آپ مجھے معاف کریں اور رضایت دیں، یا پھر میں نقصان کی تلافی کروں۔”
یہ واقعہ مرحوم شیخ مرتضی زاہد کے تقویٰ، حقوق الناس کے احترام اور روزِ حساب کے یقین کی ایک روشن مثال ہے۔
ماخذ: کتاب سیر و خاطرات علما، صفحہ ۴۸۔









آپ کا تبصرہ