جمعہ 7 نومبر 2025 - 06:52
آج کی نوجوان ماؤں کا سوال: تعلیم کو ترجیح دوں یا روزگار کو؟

حوزہ/ حجت الاسلام والمسلمین رضا یوسف زادہ نے "نوجوان ماؤں کی اس فکری الجھن کہ انہیں پڑھائی کو ترجیح دینی چاہیے یا کام کو" کے بارے میں ایک سوال و جواب پیش کیا ہے جو ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین رضا یوسف زادہ نے "نوجوان ماؤں کی اس فکری الجھن کہ انہیں پڑھائی کو ترجیح دینی چاہیے یا کام کو" کے بارے میں ایک سوال و جواب پیش کیا ہے جو ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: ایک 24 سالہ خاتون جس کی پانچ سال کی بیٹی ہے، اس کے لیے بہتر کیا ہے۔ پڑھائی کرنا یا ملازمت اختیار کرنا؟

جواب: یہ سوال دراصل ہر خاتون کی اپنی زندگی کے حالات، سوچ اور زاویۂ نظر پر منحصر ہے۔ لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ "گھر پر رہنا" کو ہرگز "گھر سے باہر کام کرنے" کے مقابلے میں کمتر نہ سمجھا جائے۔ بعض اوقات گھر کے اندر انجام پانے والے کاموں کی اہمیت اور اثر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

اصل چیز فعال رہنا ہے۔ یہ کہ آپ کے اندر یہ سوچ پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ سوال اٹھایا ہے، یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ آپ ایک با شعور اور متحرک خاتون ہیں — اور یہ چیز بہت قیمتی ہے۔ افسوس کہ آج کی بہت سی خواتین میں ایک طرح کی "غیرفعالیت" پائی جاتی ہے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے حد سے زیادہ استعمال نے خواتین کی گھریلو سرگرمیوں کو کم کر دیا ہے۔

میرے نزدیک، ہر خاتون کو اپنے گھر میں فعال ہونا چاہیے۔ یعنی وہ اپنے گھر کے ماحول کو سنوارے، صفائی و ترتیب کا خیال رکھے، اور کبھی کبھار گھر کے اندر چھوٹے موٹے تبدیلیاں کرے۔ اس سے میری مراد نمائش یا فیشن نہیں ہے، بلکہ سادہ تبدیلیاں ۔ جیسے فرنیچر کی جگہ بدلنا، چیزوں کی نئی ترتیب یا گھر کے ماحول میں ہلکی تبدیلی، گھر میں تازگی اور سرور پیدا کرتی ہیں۔

خاتونِ خانہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے گھر کا ماحول بدل سکتی ہے؛ جیسے نئے اور مزیدار کھانے بنائے، کیک یا میٹھا تیار کرے، گھر والوں کے لیے خوش ذائقہ مشروبات بنائے۔ یہ چیزیں بچوں اور شوہر کے دل میں خوشی اور گھر میں مثبت توانائی پیدا کرتی ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ زندگی میں حرارت اور حرکت باقی رہے۔

اب اگر آپ کے حالات اجازت دیتے ہیں اور آپ کے شوہر بھی ساتھ ہیں، تو آپ گھر سے باہر کسی کام کے بارے میں سوچ سکتی ہیں۔ مگر یاد رکھیں، ایک ایسی ماں کے لیے جو چھوٹے بچے کی پرورش کر رہی ہو، گھر اور کام کے درمیان توازن قائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے شوہر کی مدد اور تعاون بہت ضروری ہے۔

اور اب آتے ہیں اصل سوال پر: پڑھائی کروں یا کام؟

دونوں کے اپنے فائدے اور چیلنج ہیں۔ کام کرنے سے مالی آزادی حاصل ہوتی ہے اور آپ گھر کی کفالت میں شریک بن سکتی ہیں۔ لیکن پڑھائی کا ایک بہت اہم پہلو یہ ہے کہ یہ آپ کو اپنے بچے کے لیے ایک نیک نمونہ بنا دیتی ہے۔

بچے سب سے پہلے اپنے والدین کو دیکھتے ہیں۔ وہ ان کے رویے، محنت، استقامت اور زندگی کے نظریے سے سیکھتے ہیں۔ اگر ماں خود علم حاصل کرنے اور ترقی کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو اس کا بچہ بھی آگے چل کر اسی جذبے کے ساتھ پروان چڑھتا ہے اور علم و کوشش کی قدر کرنا سیکھتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha