جمعرات 13 نومبر 2025 - 13:05
۱۲ روزہ جنگ کے بعد پوری دنیا کے دل جمہوری اسلامی ایران کی طرف مائل ہوئے

حوزہ / حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ نے کہا: ۱۲ روزہ جنگ کے بعد پوری دنیا کے ذہن اور دل انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور کی طرح جمہوری اسلامی ایران کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ صہیونی مسیحی جو کہا کرتے تھے کہ یروشلم میں یہودی ریاست کے قیام اور حضرت مسیح کی آمد کی راہ ہموار کرنے کے لیے خدا کی مرضی ہے، لیکن اب وہ پوچھ رہے ہیں: "پھر خدا کی مرضی کیا تھی؟" اور بعض اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خدا کی مرضی اسرائیل کی حفاظت نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کا خاتمہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین مفید حسینی کوہساری نے بلاغ مبین میڈیا کمیٹی کے ایک اجلاس میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام کی تعزیت پیش کرتے ہوئے سال 1447 ہجری قمری کو "پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے 1500 ویں سال" کے نام سے منائے جانے کے حوالے سے ملک اور بیرون ملک اس عنوان کی تشکیل کے مراحل اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 40 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے اور 13 سال مکہ میں گزارے لہذا جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 53 سال کے تھے۔ اس سال کی کیا خصوصیت تھی؟ جس سال پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 53 سال کے تھے، وہی سال ہماری تقویم کا سال صفر ہے۔ چنانچہ ہجری تقویم، خواہ شمسی ہو یا قمری، ہجرت کے سال سے ہی شمار ہوتی ہے۔ اس سال 1447 ہجری قمری ہے۔ 1447 میں 53 کا اضافہ 1500 بنتا ہے۔ یہ حساب کتاب درحقیقت اسی سے ماخوذ ہے۔

۱۲ روزہ جنگ کے بعد پوری دنیا کے دل جمہوری اسلامی ایران کی طرف مائل ہوئے

حجت الاسلام والمسلمین کوہساری نے کہا: کیسے یہ عنوان اس طرح مستحکم اور متعارف ہوا: پہلے ملک میں کچھ لوگ پیغامات دے رہے تھے کہ "بظاہر سال 1447 پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا 1500 واں سال ہے، کیا آپ کوئی کام نہیں کرنا چاہتے؟" اور انہی تنبیہات اور پیغامات نے ان اقدامات کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا تھا کہ کیا یہ حساب جسے ہم نے اتنی آسانی سے پیش کیا، قابل قبول ہے بھی یا نہیں، یعنی دوسرے بھی اس حساب کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟۔

حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ نے مزید کہا: اس سلسلے میں کام کیا گیا۔ چونکہ محسوس کیا گیا کہ یہ معاملہ بین الاقوامی ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ اسے اسلامی اور بین الاقوامی فورمز پر قبولیت حاصل ہو۔

انہوں نے کہا: وزارت خارجہ کی جانب سے عالم اسلام کے معروف علمی اداروں میں سے ایک "جدہ فقہی اسمبلی" کے ساتھ سرکاری خط و کتابت کی گئی۔ انہوں نے بھی تحریری جواب دیا کہ ہاں، یہ درست ہے۔ اس سال پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا 1500 واں سال ہے اور جدہ فقہی اسمبلی نے سعودی عرب میں اس کی توثیق کی اور لکھا کہ اس سال پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی تجلیل کی جانی چاہیے، تقریبات منعقد کی جائیں اور سارا عالم اسلام ان پروگرامز کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ جدہ فقہی اسمبلی کی جانب سے متفقہ رائے سے ایک نسبتاً مضبوط اور جامع متن بھی جاری کیا گیا۔

۱۲ روزہ جنگ کے بعد پوری دنیا کے دل جمہوری اسلامی ایران کی طرف مائل ہوئے

حجت الاسلام والمسلمین کوہساری نے کہا: یہ موقع ایک تاریخی اور اسٹریٹجک موقع ہے، اس بات کے پیش نظر کہ حالیہ برسوں میں اربعین اور غدیر جیسے پروگرامز نے بہت ترقی اور پیشرفت کی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے حوالے سے پروگرامز، تقریبات اور مختلف اجلاسوں کو ترتیب دیا جائے۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران صیہونی مظالم اور دنیا پر اس کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: 12 روزہ جنگ کے بعد اور خاص طور پر طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے واقعے کے بعد، دنیا کو ایک بہت ہی اہم پیغام بھیجا گیا جسے بدقسمتی سے ہم نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اسرائیل ظالم اور تاریخ کے باطل کے ساتھ ہے۔ یہ بات چیت اور گفت و شنید کو قبول نہیں کرتا اور حتی یہ بین الاقوامی قوانین یا مذاہب کی بھی پابندی نہیں کرتا ہے۔ غزہ پر ظالمانہ حملوں جیسے پیغام نے اسرائیل کو دنیا میں رسوا کر دیا۔ عوامی رائے عامہ سے لے کر بین الاقوامی تنظیموں تک سب نے کہا: "اس کا کیا مطلب ہے؟ 60ہزار لوگ مارے گئے ہیں!؛ تو اقوام متحدہ؟ ہیگ کورٹ؟ انسانی حقوق؟" یہ سب کیا کر رہے ہیں؟۔

حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ نے کہا: ۱۲ روزہ جنگ کے بعد پوری دنیا کے ذہن اور دل انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور کی طرح جمہوری اسلامی ایران کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ وہابی اور سلفی جنہیں یہ بتایا گیا تھا کہ "ایران اور اسرائیل اندر سے ملے ہوئے ہیں" اور اسی طرح صہیونی مسیحی جو کہا کرتے تھے کہ یروشلم میں یہودی ریاست کے قیام اور حضرت مسیح کی آمد کی راہ ہموار کرنے کے لیے خدا کی مرضی ہے، لیکن اب وہ پوچھ رہے ہیں: "پھر خدا کی مرضی کیا تھی؟" اور بعض اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خدا کی مرضی اسرائیل کی حفاظت نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کا خاتمہ ہے۔

۱۲ روزہ جنگ کے بعد پوری دنیا کے دل جمہوری اسلامی ایران کی طرف مائل ہوئے

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha