حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مختلف لہجوں کا پایا جانا ثقافتی تنوع اور معاشرتی حسن کی علامت ہے، نہ کہ تمسخر اور مذاق کا ذریعہ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات انہی لسانی فرقوں کو نامناسب مذاق اور دوسروں کی تحقیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص ماضی میں اس غلطی کا مرتکب ہو چکا ہو تو اس کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ اس حوالے سے حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہای (مدظلہ العالی) کے ایک استفتاء کے جواب کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: اگر ہم نے پہلے کسی کے مقامی لہجے کا مذاق اُڑایا ہو، تو کیا ہمیں اس سے حلالیت طلب کرنا واجب ہے؟
جواب: مختلف علاقوں کے لہجوں کی نقل اگر تمسخر اور استہزاء کی نیت سے کی جائے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں، اگرچہ یہ غیبت کے زمرے میں نہیں آتی؛ کیونکہ لہجہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ مزید یہ کہ لہجہ بذاتِ خود کوئی عیب بھی نہیں، اس لیے اسے غیبت نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن اگر لہجے کی نقل تمسخر اور مذاق کے لیے ہو تو یہ حرام ہے، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ کسی پورے علاقے کے عمومی لہجے کی نقل کی جائے یا کسی خاص فرد کے لہجے کی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر کسی پورے علاقے کے لہجے کا مذاق اُڑایا جائے تو یہ اُس پوری جماعت کی توہین شمار ہوگی، جس کے اپنے مخصوص شرعی اثرات ہیں؛ مثلاً اگر حلالیت طلب کرنی ہو تو ایک ایک فرد سے معافی مانگنا لازم ہوگا۔ اور اگر کسی ایک شخص کا مذاق اُڑایا گیا ہو تو صرف اسی ایک سے حلالیت طلب کی جائے گی۔
البتہ اگر لہجے کی نقل تمسخر کی نیت سے نہ ہو تو وہ حرام نہیں ہے۔









آپ کا تبصرہ