۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حسنین قمی

حوزہ/آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کی اپیل ، امداد کے نام پر کسی اکاونٹ میں نہ ڈالیں رقم ، راست پہنچائیں غریبوں تک راشن اور پیسہ

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ ( قدیم ) کے جنرل سکرٹری مولانا علی حسین قمی نے کہا ہے کہ یہ وقت ببنکوں یا امداد کے نام پر چلائے جارہے کھاتوں میں پیسہ جمع کرنے کا نہیں ، بلکہ غریبوں تک امداد پہنچانے کا ہے ۔ مولانا قمی کہتے ہیں کہ سرکاری امداد اور راشن کی تقسیم کے اعلان تو کئے جارہے ہیں ، لیکن عملی طور پر ان اعلانات کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ۔ یہ وقت بینکوں کے چکر کاٹنے کا نہیں بلکہ غریبوں اور پریشان حال لوگوں کو بھوک سے بچانے کا ہے ۔ گنے چنے لوگوں کو ہزار ، پانچ سو روپئے دینے اور کچھ مخصوص علاقوں میں راشن تقسیم کرنے سے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے ۔

مولانا قمی کہتے ہیں کہ جب عام دنوں میں ہی سرکاری مشینری غریبوں کو ان کے حقوق فراہم نہیں کر پاتی ہے ، تو وبا کے دور میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا سرمایہ داروں ، بڑے بڑے ادارے چلانے والوں اور علما کو آگے آکر پیسے اور راشن کی تقسیم کو غریبوں تک پہنچانا چاہئے ۔ یہ کار خیر اگر سماج کے لوگ خود کریں گے ، تو غریبوں کو وقت پر اس کا فائدہ بھی مل سکے گا اور حکومت کے لئے بھی راحت رہے گی ۔

مولانا قمی کہتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی شخص یا سیاسی و سماجی ادارے کے اکاونٹ میں امدادی رقم جمع کرانے سے آپ خود تو مطمئن ہو سکتے ہیں ، لیکن غریب اور مزدور نہیں ۔ آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ اور امامیہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے اراکین سے بھی مولانا قمی نے یہی درخواست کی ہے کہ وہ لاک ڈاون کے اصول اور ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے پولس انتظامیہ کی اجازت کے ساتھ ان غریبوں تک پہنچیں ، جنہیں فی الفور امداد و رزق کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے چندہ لینے اور بڑے بڑے ادارے چلانے والے علما و سماج کے صاحب ثروت لوگ اگر اب بھی آگے نہیں آئیں گے ، تو خدا کو کیا منھ دکھائیں گے ۔

مولانا علی حسین قمی نے لوگوں سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ اس وبا کو مذہبی رنگ دینے کی ناپاک کوششوں اور سازشوں سے بچیں ۔ یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ اس پریشانی اور وبا کے دور میں بھی کچھ شر پسند اور متعصب لوگ ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس فکر اور عمل کو بھلائی اور بہتری کے لئے بدلنے اور سب کو مل جل انسانی بہبود کے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .