حوزہ نیوز ایجنسیl
امام علیؑ کا باقاعدہ بعنوان امام معرفی
(۱)رفع علی علیهالسلام بیدی رسول اللّه ثم ضرب بیده إلی عضد علی علیهالسلام فرفعه، وکان أمیرالمؤمنین علیهالسلام منذ أول ما صعد رسول اللّه منبره علی درجة دون مقامه مُتیامِنا عن وجه رسول اللّه کأنَّهما فی مقام واحد. فرفعه رسول اللّه بیده وبسطهما إلی السماء وشال علیا علیهالسلام حتی صارت رجله مع رکبة رسول اللّه،
(1)اس کے بعد علیؑ کو اپنے ہا تھوں پرپازوپکڑکر بلند کیا یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت علی علیہ السلام منبر پر پیغمبر اسلامؐ سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرتؐ کے دائیں طرف ما ئل تھے گویا دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہو ئے ہیں ۔
(۲)ثم قال: أیهَا النّاسُ، مَنْ أوْلی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قالوا: اللّهُ وَ رَسوُلُهُ. فَقالَ: ألا فَمَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِی مَوْلاهُ، اللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ وَعادِ مَنْ عاداهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ.
(2)اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااورعلیؑ کو اتنابلند کیا کہ آپؑ کے قدم مبارک آنحضرتؐ کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا :
(۳)مَعاشِرَ النّاسِ، هذا عَلِی أَخی وَوَصِیی وَواعی عِلْمی، وخَلیفَتی فی أُمَّتی عَلی مَنْ آمَنَ بیوَعَلی تَفْسیرِ کِتابِ اللّهِ عَزَّ وجَلَّ وَالدّاعی إلَیهِ وَالْعامِلُ بِما یرْضاهُ وَالْمُحارِبُ لاِءَعْدائِهِ وَالْمُوالی عَلی طاعَتِهِ وَالنّاهی عَنْ مَعْصِیتِهِ. إنَّهُ خَلیفَةُ رَسُولِ اللّهِ وَأَمیرُالْمُؤْمِنینَ وَالإمامُ الْهادی مِنَ اللّهِ، وَقاتِلُ النّاکِثینَ وَالْقاسِطینَ وَالْمارِقینَ بِأَمْرِ اللّهِ. یقُولُ اللّهُ: «ما یبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَی».
(3)ایھا الناس !یہ علیؑ میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوں کے لئے میرا خلیفہ ہے اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ہے یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا ،اس کی مر ضی کے مطابق عمل کر نے والا ،اس کے دشمنوں سے جہاد کر نے والا، اس کی اطاعت۔ پر ساتھ دینے والا ، اس کی معصیت سے رو کنے والا ۔ یہ اس کے رسول کا جا نشین اور مو منین کا امیر، ہدایت کرنے والا امام ہے اورناکثین( بیعت شکن ) قاسطین (ظالم) اور مارقین (خا رجی افرا سے جھاد کر نے والا ھے ۔ خداوند عالم فر ماتا ھے : ”میرے پاس بات میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے “
(۴) بِأَمْرِکَ یا رَبِّ أَقُولُ:اللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ وَعادِ مَنْ عاداهُ وَاْنصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ وَالْعَنْ مَنْ أَنْکَرَهُ وَاغْضِبْ عَلی مَنْ جَحَدَ حَقَّهُ. اللّهُمَّ إنَّکَ أَنْزَلْتَ الاْآیةَ فی عَلِی وَلِیکَ عِنْدَ تَبْیینِ ذلِکَ وَنَصْبِکَ إیاهُ لِهذَا الْیوْمِ: «الْیوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمُ الاْءسْلامَ دینا»، وَ قُلْتَ: «إنَّ الدّینَ عِنْدَ اللّهِ اْلإسْلامُ»، وَ قُلْتَ: «وَ مَنْ یبْتَغِ غَیرَ الاْءسْلامِ دینا فَلَنْ یقْبَلَ مِنْهُ وَ هُوَ فِی الاْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینَ». اللّهُمَّ إنّی أُشْهِدُکَ أَنّی قَدْ بَلَّغْتُ.
(4)خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں۔ خدا یا علیؑ کے دوست کو دوست رکھنا اور علیؑ کے دشمن کو دشمن قرار دینا ،جو علیؑ کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علیؑ کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرنا ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نا زل کرنا ۔ پروردگارا ! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علیؑ کو تاج ولایت پہناتے وقت علیؑ کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی: ”آج میں نے دین کو کامل کر دیا، نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا“ ”اور جو اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہوگا “ پرور دگارا میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی ۔