۸ آذر ۱۴۰۳ |۲۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 28, 2024
جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز کے تحت گورنر ہاوس کے مرکزی دروازے پر احتجاج تاحال جاری

حوزہ/پر امن احتجاج ہر پاکستانی کا آئینی و قانونی حق ہے،شیعہ مسنگ پرسن میں کوئی مجرم ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے، ملت جعفریہ کا آخری بے گناہ اسیر جب تک رہا نہیں ہو جاتا ہم احتجاج کرتے رہیں گے اور جب تک کوئی وفاقی ذمہ دار ہم سے رابطہ نہیں کرتا ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز کے تحت گورنر ہاوس کے مرکزی دروازے پر احتجاج تا حال جاری ہیں۔

رہنما ایم ڈبلیو ایم نے احتجاج کے دوران کہا کہ ہم لاپتہ افراد کے اہل خانہ پر پولیس گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے گورنز ہاوس کی جانب بڑھنے والے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ بلخصوص خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں، شیعہ جوانوں کو جبری طور پر غائب کردیا جاتا ہے، ہم یہاں مسنگ پرسن کی بازیابی کےلیے پر امن احتجاج کررہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گورنر سندھ وفاقی نمائندہ ہیں جو عوامی مسائل حل کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

علامہ باقر عباس زیدی نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدہ افراد محب وطن ہیں،ملت جعفریہ کو دیوار سے لگانے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

علامہ مبشر حسن نے بھی اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے کہا کہ پر امن احتجاج ہر پاکستانی کا آئینی و قانونی حق ہے،شیعہ مسنگ پرسن میں کوئی مجرم ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے، ملت جعفریہ کا آخری بے گناہ اسیر جب تک رہا نہیں ہو جاتا ہم احتجاج کرتے رہیں گے اور جب تک کوئی وفاقی ذمہ دار ہم سے رابطہ نہیں کرتا ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔

 علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ہم کراچی گورنر ہاؤس کے سامنے جاری دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہیں،جبری لاپتا افراد کی حمایت میں  جاری دھرنا آئین و قانون کی بالادستی کا تقاضہ کرتا ہے، کسی بھی شہری کو خفیہ تحویل میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،جن افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے انہیں عائد الزامات کے ساتھ عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ کسی شہری کو جبری لاپتا کرنا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ متعدد شیعہ نوجوان کئی سالوں سے لاپتا ہیں، انہیں سامنے لا کر ان کے اہل خانہ کا اضطراب دور کیا جائے۔ریاست تمام شہریوں کیساتھ مادرانہ شفقت کیساتھ پیش آئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .